بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جسم کے جلے ہوئے ہونے کی وجہ سے پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایسا مریض جس کے لیے پانی اور جسم پر ہاتھ اور کپڑا ، پٹی    لگانا بھی مضر  ہےتو مذکورہ شخص کیا کرے؟ مثلا کوئی جلا ہوا ہو وغیرہ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر مذکورہ شخص کے لیے جل جانے کی وجہ سے  پانی کا استعمال مضر اور نقصان دہ  ہے تو اس صورت میں اگر   وہ مسح پر قادر ہے یعنی مسح سے اس کو نقصان نہیں پہنچتا، اور وہ خود مسح کرسکتا ہے یا کوئی اور ایسا شخص موجود ہے جو اس کی اعانت کرے گا جیسا کہ خادم، بیوی ،  بیٹا وغیرہ تو ایسی صورت میں  مذکورہ شخص مسح کرکے نماز پڑھ لے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ پانی میں ہاتھ گیلا کرے وضو کے وقت اعضاءِ وضو پر پانی والا ہاتھ  پھیر دے، اور غسل کے لیے پورے جسم پر اس طرح گیلا ہاتھ پھیر دے، بشر ط یہ ہے کہ یہ مسح اس کو نقصان نہ پہنچائے، اگر مسح سے بھی نقصان پہنچتا ہوتو   پھر مسح بھی چھوڑ دے، پھر اگر وہ یا کوئی شخص اس کو تیمم کراسکتا ہے، اور اس کے جسم پر پٹی بھی نہیں بندھی ہوئی ہے اور نہ  ہی تیمم اس کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ تیمم کرلے،  اگر یہ بھی نقصان پہنچاتا ہے تو اس کو  بھی چھوڑ دے اور اسی طرح نماز پڑھ لے، اس کی نماز ادا ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 102):
" [فروع]
في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، ولا يقدر على الماء تيمم، ولو قطع من المرفق غسل محل القطع.

(قوله: شقاق) هو بالضم. وفي التهذيب قال الليث: هو تشقق الجلد من برد أو غيره في اليدين والوجه: وقال الأصمعي: الشقاق في اليد والرجل من بدن الإنسان والحيوان، وأما الشقوق فهي صدوع في الجبال والأرض. وفي التكملة عن يعقوب: يقال بيد فلان شقوق ولايقال شقاق؛ لأن الشقاق في الدواب: وهي صدوع في حوافرها وأرساغها مغرب.
(قوله: وإلا تركه) أي وإن لم يمسحه بأن لم يقدر على المسح تركه.
(قوله: ولا يقدر على الماء) أي على استعماله لمانع في اليد الأخرى، ولا يقدر على وضع وجهه ورأسه في الماء".

وفيه أيضًا: (1/ 231):

"[تتمة] زاد في نور الإيضاح في الشروط شرطين آخرين: الأول انقطاع ما ينافيه من حيض أو نفاس أو حدث: والثاني زوال ما يمنع المسح على البشرة كشمع وشحم، لكن يغني عن الثاني الاستيعاب كما لا يخفى".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 147):

"(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، وهو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لا يبيح التيمم، وهو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، وهو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة ودفع الحرج، وهو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد والامتداد ولا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لايجد من يوضئه و لايقدر بنفسه اتفاقا، وإن وجد خادما كعبده وولده وأجيره لايجزيه التيمم اتفاقًا كما نقله في المحيط، وإن وجد غير خادمه من لو استعان به أعانه و لو زوجته فظاهر المذهب أنه لايتيمم من غير خلاف بين أبي حنيفة وصاحبيه كما يفيده كلام المبسوط والبدائع وغيرهما". 

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں