بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کا کوئی وارث نہ ہو، اس کی میراث کا حکم


سوال

میں نے ایک بچہ کسی ہسپتال سے گود لیا، جس کے والدین کے آٹھ سال ہوگئے کچھ معلوم نہیں ہے، لاوارث جیسا تھا۔ اگر میں اس کو مال جائیداد نام کردوں، پھر اگر کل کو اس کا انتقال ہو، اس کی کوئی اولاد نہ ہو تو یہ مال جائیداد کس کو ملے گی؟ اس کا شرعی حکم بتادیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر میت بالغ ہو اور اس کا انتقال ہوجائے، اور اس کے قریبی یا دور کے کسی بھی وارث کا علم نہ ہو (ددہیال، ننہیال میں سے کسی رشتہ دار کا علم نہ ہو)، وہ شادی شدہ بھی نہ ہو تو اس کے سارے مال کا مستحق وہ ہوگا جس کے لیے اس نے موت کے بعد سارے مال کی وصیت لکھی ہو۔ اور اگر کسی کے لیے وصیت نہیں لکھی تو بیت المال کے انتظام میں فساد کی وجہ سے اب اس مال کا مصرف فقراء ہیں۔

اور میت نابالغ ہونے کی صورت میں اس کی وصیت معتبر نہیں ہے، پورا ترکہ فقراء پر صرف کیا جائے گا۔

نیز یہ بھی واضح ہو کہ کسی کے نام جائیداد کرنے سے وہ اس کا مالک نہیں بن جاتا، بلکہ مالک بنانے کے لیے اسے قبضہ و تصرف دینا ضروری ہوتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 762):

"و المستحقون للتركة عشرة أصناف مرتبة كما أفاده بقوله: (فيبدأ بذوي الفروض) أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب ثلاثة من الرجال وسبعة من النساء واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد والجمع وجمعه للازدواج (النسبية) لأنها أقوى (ثم بالمعتق) ولو أنثى وهو العصبة السببية(ثم عصبته الذكور) لأنه ليس للنساء من الولاء إلا ما أعتقن (ثم الرد) على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم (ثم ذوي الأرحام ثم بعدهم مولى الموالاة) كما مر في كتاب الولاء وله الباقي بعد فرض أحد الزوجين ذكره السيد (ثم المقر له بنسب) على غيره (لم يثبت) فلو ثبت بأن صدقه المقر عليه أو أقر بمثل إقراره أو شهد رجل آخر ثبت نسبه حقيقة وزاحم الورثة وإن رجع المقر وكذا لو صدقه المقر له قبل رجوعه وتمامه في شروح السراجية سيما روح الشروح وقد لخصته فيما علقته عليها (ثم) بعدهم (الموصى له بما زاد على الثلث) ولو بالكل وإنما قدم عليه المقر له لأنه نوع قرابة بخلاف الموصى له (ثم) يوضع (في بيت المال) لا إرثًا بل فيئًا للمسلمين."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 334):

"فلا بد من أهلية التبرع فلا تصح من الصبي، والمجنون؛ لأنهما ليسا من أهل التبرع لكونه من التصرفات الضارة المحضة إذ لا يقابله عوض دنيوي، وهذا عندنا."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 338):

"ورابعها الضوائع مثل ما لا ... يكون له أناس وارثونا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 338):

"(قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ) موافق لما نقله ابن الضياء في شرح الغزنوية عن البزدوي من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك. اهـ.

ولكنه مخالف لما في الهداية والزيلعي أفاده الشرنبلالي أي فإن الذي في الهداية وعامة الكتب أن الذي يصرف في مصالح المسلمين هو الثالث كما مر.

وأما الرابع فمصرفه المشهور هو اللقيط الفقير والفقراء الذين لا أولياء لهم فيعطى منه نفقتهم وأدويتهم وكفنهم وعقل جنايتهم كما في الزيلعي وغيره.

وحاصله: أن مصرفه العاجزون الفقراء، فلو ذكر الناظم الرابع مكان الثالث ثم قال: وثالثها حواه عاجزونا ورابعها فمصرفه إلخ لوافق ما في عامة الكتب".

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144202200604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں