بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کام سے توبہ کی ہو اور وہ کام پھر سے ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے؟


سوال

میرا ایک بہت برا عمل ہے ،جب بھی میں کرتا ہوں ،تو بعد میں بہت دکھ ہوتا ہے ،تو اللہ سے معافی مانگ کر نیت کرتا ہوں کہ آئندہ نہیں کروں گا، لیکن کچھ ٹائم گزرنے کے بعد پھر وہی عمل کر لیتا ہوں، اس پر راہ نمائی فرمائیں؟ 

جواب

جس کام سے توبہ کی ہو وہ کام دوبارہ ہونے کی صورت میں دوبارہ سچے دل سے توبہ کرلینی چاہیے، توبہ کرتے وقت اگر سچے دل سے اس گناہ کو چھوڑنے کی نیت ہو تو  توبہ قبول ہوجاتی ہے ، چاہے پہلے کتنی ہی بار ٹوٹ جائے۔ سچی توبہ کے تین رکن ہیں :

اول اپنے کیے پر ندامت اور شرم ساری، حدیث میں ارشاد ہے: "إنما التوبة الندم"  ”یعنی توبہ نام ہی ندامت کا ہے“۔

 دوسرا رکن توبہ کا یہ ہے کہ جس گناہ کا ارتکاب کیا ہے اس کو فوراً چھوڑ دے اور آئندہ  اس سے باز رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرے۔

تیسرا رکن یہ ہے کہ تلافی مافات کی فکر کرے، یعنی جو گناہ سر زد ہو چکا ہے اس کا جتنا تدارک اس کے قبضہ میں ہے اس کو پورا کرے، مثلاً نماز  روزہ فوت ہوا ہے تو اس کو قضا کرے،  فوت شدہ نمازوں اور روزوں کی صحیح تعداد یاد نہ ہو، تو غور و فکر سے کام لے کر تخمینہ متعین کرے، پھر ان کی قضا  کرنے کا پورا اہتمام کرے، بیک وقت نہیں کر سکتا تو ہر نماز کے ساتھ ایک ایک نماز قضاءِ عمری کی پڑھ لیا کرے، ایسے ہی متفرق اوقات میں روزوں کی قضا  کا اہتمام کرے،  زکوٰۃ ادا نہیں کی تو گزشتہ زمانے  کی زکوٰۃ بھی یک مشت یا تدریجاً ادا کرے، کسی انسان کا حق لے لیا ہے تو اس کو واپس کرے، کسی کو تکلیف پہنچائی ہے تو اس سے معافی طلب کرے،  بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا،  حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔ لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو یہ توبہ نہیں ہے، گو ہزار مرتبہ زبان سے توبہ توبہ کہا کرے۔ (مستفاد مع تغییر معارف القرآن ،ص:342،ج:2،ط:دارالعلوم کراچی)

 لہٰذا جس شخص سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گناہ سرزد ہوگیا ہو،  اگر  وہ ان شرائط کے ساتھ دوبارہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہوں کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے، اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہے۔

دین اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

"عن أنس، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "كل بني آدم خطاء، وخير الخطائين التوابون"

(کتاب :سنن ابن ماجہ ،باب ذكر التوبة،ص:321،ج:5،ط:دار الرسالة العالمية)

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔

گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، اور توبہ کی اولین شرط یہی ندامت و پشیمانی ہے، حدیث شریف میں ندامت کو ہی توبہ کہا گیا ہے،اگر کوئی شخص اسی ندامت کے ساتھ گناہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے معافی مانگے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں،بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ  کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، مثلاً:

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)

صحیح مسلم  ميں هے :

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والذي نفسي بيده ‌لو ‌لم ‌تذنبوا لذهب الله بكم، ولجاء بقوم يذنبون، فيستغفرون الله فيغفر لهم۔"

( باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبة،ص:2106،ج:4،ط:مطبعة عيسى البابي الحلبي وشركاه، القاهرة)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے  قبضہ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو، البتہ اللہ تعالیٰ تم کو فنا کر دے اور ایسے لوگوں کو پیدا کرے جو گناہ کریں، پھر اس سے بخشش مانگیں اور اللہ تعالیٰ بخشے ان کو۔“

توبہ کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم -: التائب من الذنب كمن لا ذنب له"

( کتاب : سنن ابن ماجہ ، باب ذكر التوبةص320،ج5،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :’’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘ 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں