بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ میں ملنے والے نفع کا حکم


سوال

  گورنمنٹ ملازمین سے چی پی فنڈ کاٹا جاتا ہے، اس پر گورنمنٹ ہر مالی سال پورا ہونے پر جولائی  کے بعد اضافہ لگا دیتی ہے ،نوکری پوری ہونے پر یہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کسی بھی وقت درخواست دے کر لے سکتا ہے، لیکن اگر کوئی  ملازم جولائی  کے بعد فروری تک ریٹائر ہو جاہے تو وہ ان مہینوں اور اپنی جمع رقم پر منافع لینے کے لیے  اپنا جی پی فنڈ اگلے مالی سال ختم ہونے تک مؤخر کر دیتا ہے؛ تاکہ اس رقم پراضافہ لگ جائے،اضافہ لگ جانے کے بعد یہ رقم وصول کرنے کے لیے  درخواست دیتا ہے، اور اپنا جی پی فنڈ اضافے کے ساتھ وصول کرتا ہے، شریعت کی رو سے یہ کیساہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سرکاری  اداروں کی طرف سے ملازمین کے لیے پراویڈنٹ فنڈ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، اور اس فنڈ میں شمولیت کے لیے  ملازمین کی تنخواہ میں سے کچھ فیصد کٹوتی کرکے ہر ماہ اس فنڈ میں جمع کرلی جاتی ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت کمپنی جمع شدہ رقم اضافہ کے ساتھ ملازم کو دے دیتی ہے، اس کی چند صورتیں ہیں:

جی پی  فنڈ کی رائج صورتیں:

1۔ بعض ادارے اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتے ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتے، ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی طے شدہ شرح کے مطابق جبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے،اس قسم کی کٹوتی کو جبری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

2۔ بعض اداروں کی طرف سے ہر ملازم کے لیے اس فنڈ کا حصہ بننا لازمی نہیں ہوتا ، بلکہ ملازمین کو اختیار ہوتاہے کہ اپنی مرضی سے جو ملازم اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ اس فنڈ کا حصہ بن سکتا ہے اور ملازمین کی اجازت سے ہر ماہ طے شدہ شرح کے مطابق ان کی تنخواہوں سے کٹوتی کرکے مذکورہ فنڈ میں جمع کی جاتی رہتی ہے،اس قسم کی کٹوتی کواختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

3۔ بعض ادارے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو اختیار دیتے ہیں کہ اگر کوئی ملازم اس فنڈ میں مقررہ شرح سے زیادہ رقم جمع کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے ، اس قسم کی کٹوتی کو جبری و اختیاری کٹوتی کہا جاتا ہے ۔

مذکورہ صورتوں میں ملنے والے اضافے کا حکم:

1۔ پہلی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ۔ اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا۔ البتہ اگر کوئی احتیاطاً یہ رقم استعمال نہ کرے تو یہ تقوی کی بات ہے۔

2۔ دوسری  قسم (اختیاری کٹوتی)  کا حکم یہ ہے کہ ملازمین نے اپنی تنخواہوں سے جتنی کٹوتی کرائی ہے وہ اوراس پرمحکمہ والوں نےاپنےجانب سےجو اضافہ کیاہےان دونوں قسموں کی رقم کالینا توجائزہے،البتہ اس پرمزید بينك وغيره کی طرف سےجوسود لگتاہے،اس رقم كالیناجائزنہیں ہے۔

3۔ تیسری صورت( جبری واختیاری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز ہوتا ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی   ہے،اوراس پرمحکمہ والےنےاپنےجانب سےجو اضافہ کیاہےان دونوں قسموں کی رقم کاوصول کرناتوجائزہے،البتہ اس پربينك وغيره سےجواضافہ  ملتاہے،وه چونکہ سودہے،اس ليےاس كا ليناجائزنہیں ہے۔

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، و المراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(كتاب الإجارة ،ج:7،ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر."

(کتاب البیوع ،مطلبكل قرض جر نفعا حرام،ج:5،ص: 116،ط: دار الفكر)

وفيه ايضا:

"(خال عن عوض)۔۔۔(بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد بربا (مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر ۔۔۔(في المعاوضة)."

(کتاب البیوع ،مطلب في الإبراء عن الربا،ج:5،ص: 169/ 170، ط: دار الفكر)

جواہر الفقہ میں ہے:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے، وہ شرعًا سود نہیں، بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے،  اس  لیے  اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں