بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فلاں کام کرنے کے باوجود اس کے نہ کرنے کی جھوٹی قسم کھانا


سوال

اگر کوئی قسم کھائے کہ :میں نے فلاں پرچہ بالکل نہیں دیکھاحالاں کہ  تھوڑاسادیکھاہے تواس جھوٹی قسم کھانے کا کیا حکم  ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر گزشتہ زمانے کی کسی بات یا واقعے پر جھوٹی قسم کھائی جائے تو یہ"یمینِ غموس"  کہلاتی ہے، یعنی ایسی قسم کی بنا  پر انسان گناہ کے سمندر  میں ڈوب جاتا ہے، یہ اس قدر سنگین گناہ ہے کہ اس کا مالی کفارہ نہیں، بلکہ صدق دل سے  توبہ واستغفار ضروری ہے،  لہٰذا صوتِ مسئولہ میں سائل  نے پرچہ دیکھنے کے باوجود اس بات پر  جھوٹی قسم کھالی ہے کہ اس نے پرچہ نہیں دیکھا تو اسے چاہیے کہ  وہ سچے دل سے  توبہ اور  استغفار کریں اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے اجتناب کرے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وھي أي: الیمین باللہ تعالی … غموس تغمسه فی الإثم ثم فی النار، وھي کبیرة مطلقاً … إن حلف علی کاذب عمداً … کو اللہ ما فعلت کذ عالماً بفعله أو … کواللہ ما له علي ألف عالماً بخلافه وواللہ إنه بکر عالماً بأنه غیرہ … ویأثم بھا فتلزمه التوبة."

(کتاب الأیمان،3/ 705، ط: سعید) 

ہدایہ میں ہے :

"الأيمان ‌على ‌ثلاثة أضرب اليمين العموس ويمين منعقدة ويمين لغو فالغموس هو الحلف على أمر ماض يتعمد الكذب فيه فهذه اليمين يأثم فيها صاحبها لقوله عليه الصلاة والسلام: من حلف كاذبا أدخله الله النار،  ولا كفارة فيها إلا التوبة والاستغفار."

(کتاب الأیمان ، 3 /317 ، ط:بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں