بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جس کے پاس گاڑیاں ہوں اس کو زکوۃ دینے کا حکم


سوال

 کیاایسے شخص کو زکوة  کی رقم دی  جاسکتی ہے؟  جس کے پاس نصاب کی مقدارسے زیادہ رقم کی استعمال کی گاڑیاں  ہیں اورمذکورہ شخص صحت مندبھی ہے، اگر محنت کاکام کرے تو محتاج نہیں رہ سکتا۔

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر مذکورہ شخص کے پاس گاڑیاں  استعمال کی ہیں،  تجارت کے لیے نہیں ہیں، جب کہ وہ مستحقِ زکوۃ ہے ( یعنی مسلمان ہے، غیرسید ہے، غریب یعنی صاحب نصاب نہیں ہے) تو مذکورہ شخص  کو زکوۃ دینا جائز ہے۔باقی اگر یہ شخص محنت کے قابل ہے تو اسے اس کی ترغیب بھی دی جائے اور ممکن ہو تو اس کے کام کی کوئی ترتیب بھی بنادی جائے۔

واضح رہے کہ یہاں صاحبِ نصاب سے مراد وہ شخص ہے جس کی ملکیت میں ضرورت  و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی میں سے کسی ایک کی مالیت تک پہنچ جائے؛ لہٰذا ایسا شخص جو اتنے مال یا سامان کا مالک ہو وہ زکوٰۃ  وصول نہیں کرسکتا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية."

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209201360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں