بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور اور پرندوں کو حنوط کرکے گھر میں رکھنا


سوال

کیا مور کو حنوط کر کے گھر میں رکھنے کی اجازت ہے۔ اس کا حکم بت پرستی میں تو نہیں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں جان دار کی مجسمہ سازی اور انہیں گھروں میں رکھنا  جائز نہیں ہے، یہ تصویر کے حکم میں ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا جان دار کی تصویریں ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس میں جان دار کی تصاویر ہوں تو اسے توڑ دیتے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصورین کو ہوگا۔

اور جانور کو مرنے کے بعد اس کی کھال میں مختلف اشیاء بھر کر یا مردہ جسم کو حنوط کرکے اگر محفوظ کیا جائے تو وہ بھی مجسمے کے حکم میں ہوگا، لہٰذا مور وغیرہ کو حنوط کرکے رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

البتہ اگر جان دار کا مجسمہ نہ ہو یا اس کا سر  نہ بنایا جائے، یا اس کا چہرہ ایسا ہو کہ اس سے جان دار کی حکایات نہ ہو تو پھر   وہ تصویر اور مجسمہ کے حکم سے نکل جائے گا۔

"عن ابن عباس، عن أبي طلحة، رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتدخل الملائكة بيتاً فيه كلب ولا تصاوير»".

(صحيح البخاري 7 / 167)

" عن عمران بن حطان، أن عائشة، رضي الله عنها حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم «لم يكن يترك في بيته شيئاً فيه تصاليب إلا نقضه»".

(صحيح البخاري 7 / 167)

"عن نافع، أن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: " أحيوا ما خلقتم". أیضاً.

عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون» أیضاً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 226):

"(اشترى ثورًا أو فرسًا من خزف) لأجل (استئناس الصبي لايصح و) لا قيمة له."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں