بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت کا وقت ہوجانے کی وجہ سے امام کا سنت چھوڑنا


سوال

اگر وقت تنگ ہو اور جماعت کا وقت ہوجائے تو کیا امام فجر کی سنتیں چھوڑ کر فرض کی امامت کرواسکتا ہے یا پہلے سنتیں پڑھے پھر امامت کرائے؟

جواب

فجر کے وقت فرض نماز سے پہلے دو رکعت سنت مؤکدہ کی تاکید تمام سنن مؤکدہ سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ بعض روایات میں امام اعظم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے  ان دو رکعتوں کے بارے میں واجب ہونا منقول ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا ہے: ’’فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو، اگرچہ  گھوڑے تمہیں روند ڈالیں‘‘۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ  ’’فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے‘‘۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں محض فجر کی جماعت کا وقت ہوجانے کی وجہ سے (جب کہ طلوعِ آفتاب میں وقت باقی ہو) امام کے لیے سنت کا چھوڑنا جائز نہیں، ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ مختصراً دو رکعت سنت پڑھ کر جماعت سے نماز پڑھائے۔ 

شرح مشكل الآثار (10/ 320،321) :

" عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها".

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 444) :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لاتتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 387):

"و السنة مندوبة ومؤكدة وبين المؤكدة بقوله "من سنة مؤكدة" منها "ركعتان قبل" صلاة "الفجر" وهو أقوى السنن حتى روى الحسن عن أبي حنيفة رحمهالله تعالى لو صلى قاعدا من غير عذر لايجوز وروى المرغيناني عن أبي حنيفة رحمه الله أنها واجبة وقال صلى الله عليه وسلم: "لا تدعوهما وإن طردتكم الخيل" وقال صلى الله عليه وسلم: "ركعتا الفجر أحب إلي من الدنيا وما فيها" ثم اختلف في الأفضل بعد ركعتي سنة الفجر."

(کتاب الصلاۃ، فصل في بیان النوافل، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200776

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں