بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جائز پرافٹ کی حد


سوال

 میں موبائل قسطوں پر دیتا ہوں اور باقی دیگر چیزیں بھی قسطوں پر دیتا ہوں اس پر میں 35 سے 40 پرسنٹ پرافٹ لیتا ہوں، کیا یہ جائز ہے؟ کتنا پرسنٹ پرافٹ لینا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں منافع کی کوئی حد  مقرر تو نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، فروخت کرنے والا اورخریدار باہمی رضامندی سے کوئی بھی شرح طے کرسکتے ہیں، البتہ منافع اتنا مقرر کرنا چاہیے جس میں فروخت کرنے والے کے ساتھ ساتھ خریدار کے مصالح کی بھی رعایت رہے، نیز  شریعت نے تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائے اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔ نیز عام اشیاء (غذائی اجناس کے علاوہ) میں قیمتِ خرید (مع اخراجات) کے نصف سے زیادہ نفع رکھنا اچھا نہیں ہے۔

مسند احمد میں ہے:

"عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ أَدْعُو، ثُمَّ جَاءَ هُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ اﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَإِنِّي لَاَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ".

( ٢/ ٣٣٧، رقم الحديث: ٣٤٥٠، ط: موسسة قرطبة مصر)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ".

(٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124):

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقا للقيمة الحقيقية أو ناقصًا عنها أو زائدًا عليها."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں