بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کمیٹی کے قیام کا حکم


سوال

ہمارے علاقہ میں ایک کمیٹی قائم ہے، جو لوگوں سے فنڈ جمع کرتی ہے، اور اس فنڈ سے جب کبھی کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کی تدفین اور دوسرے رسومات میں اس کا استعمال کرتی ہے اور غریب نہ دینے والوں کو ملامت بھی کرتی ہے، البتہ بعض غریب لوگوں کو کمیٹی والوں نے باہمی مشاورت کر کے اس فنڈ سے مستثنیٰ کر دیا ہے اور ان سے فنڈ نہیں لیتے، اس کے علاوہ اس فنڈ سے علاقہ میں مختلف کام بھی کرتے ہیں۔فنڈ متعین ہے، ہر ماہ 200 روپے دیے جائیں گے۔

اس کمیٹی کا کیا حکم ہے؟

جواب

سوال میں جس کمیٹی کا ذکر کیا گیا ہے اس کمیٹی کے قیام میں کئی شرعی قباحتیں ہیں:

1:… کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد، چاہے امیر ہو یا غریب، ہر ماہ ایک مخصوص رقم کمیٹی میں جمع کرے، اگر وہ یہ رقم جمع نہیں کراتا تو اُسے کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، پھر کمیٹی اس کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ماہانہ چندہ دینے والے ممبران کو مہیا کرتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمیٹی کی بنیاد ’’امدادِ باہمی‘‘ پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد ہرممبر کو اس کی جمع کردہ رقم کے بدلے سہولیات  فراہم کرنا ہے، یہ سہولیات اس کی جمع کردہ رقم کی نسبت سے کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوسکتی ہیں، یہ معاملہ واضح طور پر قمار (جوا) کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ 

2:…کمیٹی کے ممبران میں سے بعض اوقات غریب و نادار لوگ بھی ہوتے ہیں، جو اتنی وسعت و استطاعت نہیں رکھتے کہ ماہانہ سو روپے بھی ادا کرسکیں، لیکن خاندانی یا معاشرتی رواداری کی خاطر یا لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے وہ مجبوراً یہ رقم جمع کراتے ہیں، یوں وہ رقم تو جمع کرادیتے ہیں، لیکن اس میں خوش دلی کا عنصر مفقود ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مال استعمال کرنے والے کے لیے حلال طیب نہیں ہوتا، کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے صرف اس کی دلی خوشی اور رضامندی کی صورت میں حلال ہے۔

3:… بسااوقات اس طریقہ کار میں ضرورت مند اور تنگ دست سے ہم دردی اور احسان کی بجائے اس کی دل شکنی کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ بدسلوکی کا رویہ برتا جاتا ہے، کیوں کہ خاندان کے جو غریب افراد کمیٹی کی ماہانہ یا سالانہ فیس نہیں بھر پاتے انہیں کمیٹی سے خارج کردیا جاتا ہے، اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کے باوجود اُنہیں اس نظم کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور پھر موت کے پرآشوب موقع پر اُسے طرح طرح کی باتوں اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4:… اس طریقہ کار میں کھانا کھلانا ایک عمومی دعوت کی شکل اختیار کرجاتا ہے، حال آں کہ مستحب یہ ہے کہ یہ انتظام صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہو۔

لہذا  اگر کسی کے ہاں میت ہوجائے تو مستحب یہ ہے کہ میت کے عزیز و اقارب و پڑوسی مل کر میت کے اہلِ خانہ کے لیے کھانے کا انتظام کریں، میت کی تجہیزو تکفین کے خرچہ کے لیے دیکھا جائے کہ اگر میت نے کچھ مال چھوڑا ہے توتجہیز و تکفین کا خرچہ اس کے مال میں سے کیا جائے اور اگر میت نے کسی قسم کا مال نہیں چھوڑا تو جس شخص پر اس کا خرچہ واجب ہے، وہ یہ اخراجات برداشت کرے، اگر وہ نہیں کرپاتا تو خاندان کے مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ یہ اخراجات اپنے ذمے لے لیں، مروجہ کمیٹیوں کے قیام میں شرعاً کئی قباحتیں ہیں، اس سے اجتناب کیا جائے۔ البتہ اگرمندرجہ بالا قباحتوں سے اجتناب کرتے ہوئے رفاہی انجمن یا کمیٹی قائم کی جائے جس میں مخیر حضرات ازخود چندہ دیں، کسی فردکوچندہ دینے پر مجبور نہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، یہ انجمن یا کمیٹی خاندان کے لوگوں کی ضروریات کی کفالت کرے، بے روزگار افراد کے لیے روزگار ، غریب و نادار بچیوں کی شادی اور دیگر ضروریات میں ضرورت مندوں کی مدد کرے، ان امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اگریہ کمیٹی یا انجمن خاندان کے کسی فرد کی موت کے بعد اس کی تجہیز و تکفین پر آنے والے اخراجات بھی اپنے ذمہ لے تو یہ درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس باتخاذ طعام لهم. و في الرد: (قوله: وباتخاذ طعام لهم ) قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم".

(رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:۲ ،ص:۲۴۰ ، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في الفتح: ویستحب لجیران أهل المیت والأقرباء الأباعد تهیئة طعام لهم یشبعهم یومهم ولیلتهم؛ لقوله: اصنعوا لآل جعفر طعاماً فقد جاء هم ما یشغلهم. حسنه الترمذي وصحح الحاکم. ولأنه بِرٌّ ومعروف، ویلح علیهم في الأکل؛ لأن الحزن یمنعهم من ذلک فیضعفون الخ.

مطلب في کراهة الضیافة من أهل المیت وقال أیضاً ویکره اتخاذ الضیافة من الطعام من أهل المیت؛ لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهه بدعة مستقبحة، وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة الخ"

(رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج: ۲،ص:۲۴۰ ، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخری وسمي القمار قماراً؛ لأن کلَّ واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذهب ماله إلی صاحبه، ویجوز أن یستفید مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،ج:۶ ،ص:۴۰۴ ، ط:سعید)

مسند احمد میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه".

(مسند أحمد، مسند الکوفیین، حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث: ۲۰۷۱۴،ج:۵، ص:۷۲، ط:مؤسس قرطبة القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وروی الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحیح عن جریر بن عبد اللّٰه، قال: کنا نعد الاجتماع إلى أهل المیت وصنعهم الطعام من النیاحة الخ"

( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الجنائز،ج:۲، ص:۲۴۰، ط:سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں