بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

IVF (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کا شرعی حکم کیا ہے؟


سوال

IVF (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

  ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے، جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے  غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مردکامادہ منویہ اورعورت کا بیضہ ملاکر ٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں، پھرانجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً)  اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔ 

البتہ اگر کسی ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر  اپنا مادہ منویہ خود،  یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں داخل کرے اور اس میں مادہ منویہ نکالتے اور داخل کرتے وقت کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر  کسی مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے) تو اس کی گنجائش ہوگی۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اهـ فتأمل والظاهر أن "ينبغي" هنا للوجوب."

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل فی النظر و المس، 6/ 371، ط: سعید)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا."

(کتاب الکراھیة، الباب الثامن فيما يحل للرجل النظر إليه وما لا يحل له وما يحل له مسه وما لا يحل، 5/ 330، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا يجوز لها أن تنظر ما بين سرتها إلى الركبة إلا عند الضرورة بأن كانت قابلة فلا بأس لها أن تنظر إلى الفرج عند الولادة.

وكذا لا بأس أن تنظر إليه لمعرفة البكارة في امرأة العنين والجارية المشتراة على شرط البكارة إذا اختصما وكذا إذا كان بها جرح أو قرح في موضع لا يحل للرجال النظر إليه فلا بأس أن تداويها إذا علمت المداواة فإن لم تعلم تتعلم ثم تداويها فإن لم توجد امرأة تعلم المداواة ولا امرأة تتعلم وخيف عليها الهلاك أو بلاء أو وجع لا تحتمله يداويها الرجل لكن لا يكشف منها إلا موضع الجرح ويغض بصره ما استطاع لأن الحرمات الشرعية جاز أن يسقط اعتبارها شرعا لمكان الضرورة كحرمة الميتة وشرب الخمر حالة المخمصة والإكراه لكن الثابت بالضرورة لا يعدو موضع الضرورة لأن علة ثبوتها الضرورة والحكم لا يزيد على قدر العلة هذا الذي ذكرنا حكم النظر والمس."

(کتاب الاستحسان، 124/5، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: میری شادی کو بارہ برس گزر گئے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گئے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا  ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، 18/ 324، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

"ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریق کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفع مضرت بدنیہ نہیں بلکہ جلب منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے بھی کروانا جائز نہیں، مرد ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بےشرمی بھی ہے جس کے تصور سےبھی انسانیت کو سوں دور بھاگتی ہے، اللہ تعالی کو ناراض کرکے جو اولاد حاصل کی گئی وہ وبال ہی بنے گی۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، 8/ 215،  ط:سعید)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100869

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں