بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

IVFکا شرعی حکم


سوال

 مجھے ڈاکٹرز نے آئی وی ایف کا مشورہ دیا ہے، میں نے الگ الگ مستند مفتیان سے رابطہ کیا،دو فتوے آۓ میرے پاس،دونوں مستند فتوے جاری کرتے ہیں،ایک آپ کے ادارے کا فتوی تھا جس میں اجازت سے منع کیا گیا ہے، دوسرا فتوی  ایک اور مشہور ادارے کا ہے جس میں لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے اور شوہر کے سپرم کے ساتھ کرانے کی اجازت دی ہوئی ہے۔  نیز  ایک معروف مفتی  صاحب بھی اس کی اجازت دیتے ہیں۔ تو اب میں کشمکش کا شکار ہوں کہ کون سے فتوے پر چلوں؟  براہ کرم رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ اولاد  کا حصول نعمتِ خداوندی  ہے ، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے، اس نعمت کے حصول کے لیے مرد کو اللہ تعالیٰ نے چارعورتیں  بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے، لہٰذا اگر بیوی میں ولادت سے مانع  مرض ہے تو دوسری شادی کرلی جائے۔     ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے، جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے  غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مردکامادہ منویہ اورعورت کا بیضہ ملاکر ٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں، پھرانجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً)  اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔ 

البتہ اگر کسی مستند ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر  اپنا مادہ منویہ خود،  یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں داخل کرے اور اس میں مادہ منویہ نکالتے اور داخل کرتے وقت کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر  کسی غيرمرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے) تو اس کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج:6،ص:371،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة."

(کتاب الکراہیۃ،الباب التاسع فی اللبس ۔۔۔،ج:5،ص:330،دارالفکر)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع."

(کتاب الاستحسان،ج: 6،ص:499، ط: دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: میری شادی کو بارہ برس گذر گیے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گیے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا  ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج: 18،ص: 324، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

احسن الفتاوی میں ہے:

"ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریق کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفع مضرت بدنیہ نہیں بلکہ جلب منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے بھی کروانا جائز نہیں، مرد ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بےشرمی بھی ہے جس کے تصور سےبھی انسانیت کو سوں دور بھاگتی ہے، اللہ تعالی کو ناراض کرکے جو اولاد حاصل کی گئی وہ وبال ہی بنے گی"۔

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج: 8،ص: 215،  ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں