بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استحبابا تجدید نکاح کرنا بچہ کا پیشاب قالین پر خشک ہوجائے تو اس پر جانماز رکھ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

گواہوں اور مہر کے بغیر تجدید نکاح کرنا درست ہے کہ نہیں ؟واضح رہے کہ طلاق وغیرہ نہیں ہوئی بلکہ بطور استحباب تجدید نکاح کرنا ہے۔نجاست غلیظہ (بچہ کا پیشاب ) غیر مرئی اگر قالین پر لگ جائے اور پھر قالین خشک ہوجائے پھر اس نجاست والی جگہ پر جانماز  رکھ کر نماز پڑھنا درست ہے؟اسی طرح اگر نجاست غلیظہ مرئیہ ہو اور خشک ہونے کے بعد اسی جگہ پر جانماز رکھ کر نماز پڑھنا درست ہوگا۔

جواب

1-صورت مسئولہ میں بطور استحباب تجدید نکاح کےلیےبھی شرعی گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے البتہ نیا مہر مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ۔

2-بچوں کا پیشاب اگر قالین پر لگ جائے اور پھر قالین خشک ہو جائے تو اس پر جانماز رکھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔نجاست غلیظہ مرئیہ قالین پر لگ جائے اور خشک ہوجائے تو اس پر جانماز رکھ نماز پڑھنا جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

 "في القنية: جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا اهـ أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية"

(کتاب النکاح ، باب المهر جلد ٣ ص : ۱۱۲،۱۱۳ ط : دارالفکر)

فتاو ی عالمگیری میں ہے:

"وإن جدد النكاح للاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع، كذا في الوجيز للكردري."

(کتاب النکاح ، الباب السابع فی المہر جلد۱ ص : ۳۱۳ ط : دارالفکر) 

فتاوی شامی میں ہے۔

"والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير."

(مقدمۃ جلد۱ص : ۴۲ ط : دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے۔

"ولو بسط بساطا رقيقا على الموضع النجس وصلى عليه إن كان البساط بحال يصلح ساترا للعورة تجوز الصلاة وإن كانت رطبة فألقى عليها ثوبا وصلى إن كان ثوبا يمكن أن يجعل من عرضه ثوبا يجوز عند محمد وإن كان لا يمكن لا يجوز وكذا لو ألقى عليها لبدا فصلى عليه يجوز وقال الحلواني لا يجوز حتى يلقي على هذا الطرف الطرف الآخر فيصير بمنزلة ثوبين وإن كانت النجاسة يابسة جازت يعني إذا كان يصلح ساترا."

(کتاب الصلوۃ ، باب شروط الصلوۃ جلد ۱ ص : ۲۸۲ ط : دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی عالمگیری میں ہے۔

"ولو كانت النجاسة رطبة فألقى عليها ثوبا وصلى إن كان ثوبا يمكن أن يجعل من عرضه ثوبا كالنهالي يجوز عند محمد وإن كان لا يمكن لا يجوز إن كانت يابسة جازت إذا كان يصلح ساترا. كذا في الخلاصة."

(الباب الثانی فی شروط الصلوۃ ، الفصل الثانی  فی طھارۃ مایستر بہ العورۃ و غیرہ جلد ۱ ص : ۶۲ ط : دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

" ومبسوط على نجس إن لم يظهر لون أو ريح (قوله مبسوط على نجس إلخ) قال في المنية: وإذا أصابت الأرض نجاسة ففرشها بطين أو جص فصلى عليها جاز وليس هذا كالثوب، ولو فرشها بالتراب ولم يطين، إن كان التراب قليلا بحيث لو استشمه يجد رائحة النجاسة لا تجوز وإلا تجوز. اهـ. قال في شرحها: وكذا الثوب إذا فرش على النجاسة اليابسة؛ فإن كان رقيقا يشف ما تحته أو توجد منه رائحة النجاسة على تقدير أن لها رائحة لا يجوز الصلاة عليه، وإن كان غليظا بحيث لا يكون كذلك جازت. اهـ. ثم لا يخفى أن المراد إذا كانت النجاسة تحت قدمه أو موضع سجوده لأنه حينئذ يكون قائما أو ساجدا على النجاسة لعدم صلوح ذلك الثوب لكونه حائلا، فليس المانع هو نفس وجود الرائحة حتى يعارض بأنه لو كان بقربه نجاسة يشم ريحها لا تفسد صلاته فافهم."

(کتاب الصلوۃ ، باب یفسد الصلوۃ و مایکرہ فيها جلد ۱ ص : ۶۲۶ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307101517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں