میرا اسلامک بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ ہے، جس سے مجھے کچھ منافع نہیں ملتا، مجھے بینک کا عملہ کہتا ہے کہ اگر آپ سیونگ اکاؤنٹ کھلوا لیں گے، تو آپ کوہر ماہ کچھ نا کچھ منافع ملتا رہے گا،کیا اس منافع کا استعمال میرے لیے جائز ہو گا یا نہیں؟
کسی بھی مروجہ اسلامی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا اور اس پرمنافع لینا شرعاً جائز نہیں ،یہ نفع سود ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔
الدر مع الرد میں ہے:
"وفي الأشباه: كلُّ قرضٍ جرَّ نفعاً حرامٌ ....
(قوله: كلُّ قرضٍ جرَّ نفعاً حرامٌ) أي إذا كان مشروطاً كما عُلم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة".
(الدر مع الرد،کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ، مطلب کل قرض جرّنفعاً حرامٌ،ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(الفصلُ السّادس في تفسير الرِّبا وأحكامه) وهو في الشرع عبارةٌ عن فضلِ مالٍ لا يُقابله عوضٌ في معاوضة مالٍ بمالٍ وهو محرَّمٌ في كلِّ مكيلٍ وموزونٍ بِيعَ مع جنسه وعلّتُه القدر والجنس".
(کتاب البیوع، الباب التاسع، الفصل السادس،ج:۳،ص:۱۱۷،ط:دار االفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101977
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن