بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کی صورتیں


سوال

 اگرہم 1000 میں انشورنش کرواتےہیں صرف گاڑی کامعاوضہ ملےگا بصورتِ حادثہ، 1100 میں کرواتےہیں گاڑی کامعاوضہ بھی اورساتھ ساتھ اگرکسی کوہم نےنقصان پہنچایاہےتو اس دوسرے کو بھی معاوضہ ملے گا، اور اگر 1200 میں کرواتےہیں تو گاڑی کا اور دوسرے کی املاک ڈرائیور ہلاک ہوا ہے تو اس کا بھی معاوضہ ملےگا اور اگر 1300 میں کرواتےہیں تو گاڑی کا اور دوسرے کی املاک کا اور ڈرائیور کے ہلاک ہونے کا مزید اگر گاڑی کا مالک ہوجائے تو اس کا بھی معاوضہ۔

کیا یہ سب صورتیں جائز ہیں؟

جواب

زمانے کی جدت  کے  ساتھ ساتھ  ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے،  اسی حقیقت کے پیشِ نظر  سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے  تو ان کی اصلیت  واضح ہوجاتی ہے۔

مروجہ انشورنس  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔

انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا  انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

صحیح مسلم  میں ہے:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ».

(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

عن ابن سیرین قال: كل شيء فیه قمار فهو من المیسر.

(4/483، کتاب البیوع  والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ.

(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201201170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں