انشورنس لينا كيسا هے؟
مروجہ انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، دونوں میں صرف شکل وصورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، لہذا انشورنس کی پالیسی لینا ناجائز اور حرام ہے۔
انشورنس میں "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے، اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔
اسی طرح اس میں جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی پایا جاتا ہے، اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے فاسد قرار دیا ہے، لہذا کسی بھی قسم کا انشورنس کرنا اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
قرآنِ کریم میں ہے:
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]
صحیح مسلم میں ہے:
"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".(4/483، کتاب البیوع والأقضیة، ط: مکتبة رشد، ریاض)
فتاوی شامی میں ہے:
"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".(6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200083
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن