بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انسان کی آمدنی پروالدین، بیوی اور بھائی بہنوں کا حق


سوال

میں ایک ملازم ہوں،میری اجرت 35000 تقریبا ہے، اب میرے والد صاحب اور ہم اکھٹے رہتے ہیں، والد صاحب ریٹائر سرکاری ملازم ہیں اور پینشن لے رہے ہیں، اگر کبھی مجھے رقم کی ضرورت ہو تو میں ان سے مانگ بھی لیتا ہوں، باقی ہمارا ایک کیس عدالت میں چل رہا ہے، اس کے اخراجات بھی والدین ہی برداشت کر رہے ہیں، کیونکہ میری تنخواہ سے بمشکل ہی  گھر کا گزارا ہوتا ہے۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے پر  اس کے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کا بھی حق ہے، ان کو بھی اپنی آمدن میں سے حصہ دے، اب میرا سوال یہ ہے کہ:

1۔ کیا مجھے اپنے ماں باپ خصوصاً ماں کو رقم دینی چاہیے؟  اگر ہاں تو کتنی؟

2۔ بیوی کے کون کون سے اخراجات پورے کرنے چاہییں، میں تقریباً تین ہزار ماہانہ اور ساتھ میں کپڑے وغیرہ لے کر دیتا ہوں۔

3۔ کیا بہن بھائیوں کا بھی حق ہے مجھ پر  ان کو کتنے پیسے دینے چاہییں ہر ماہ؟

4۔ اور مجھ پراپنا کتنا حق ہے؟ میں اپنے اوپر بہت کم خرچ کرتا ہوں، کیا یہ درست ہے؟ اور مزید کون کون سے حق ہیں جن کو مجھے اپنی آمدن سے پورا کرنا چاہیے ؟

جواب

1۔اگر سائل کے والدین اپنا خرچہ  خود اٹھا سکتے ہیں تو سائل پر اپنے والدین کو اپنی کمائی میں سے کچھ رقم دینا لازم نہیں ہے ،البتہ بطور حسن سلوک وقتا فوقتا  سائل اپنے والدین بالخصوص والدہ کو اپنی استظاعت کے مطابق کچھ  رقم یا کپڑے وغیرہ جو مناسب سمجھے  دیدیا کرے ۔

2:  شوہر پر شرعا بیوی کا نان نفقہ واجب ہے، اور نان نفقہ سے مراد بقدرِ  کفایت  کھانے پینے، کپڑے، اور مکان کا انتظام کرنا ہے، نان نفقہ کے علاوہ الگ سے جیب خرچ شوہر پر لازم نہیں ہے، البتہ مستحب ہے کہ نان نفقہ کے علاوہ بھی الگ سے بیوی کو جیب خرچ دیا جائے، جس کو وہ اپنی مرضی سے جائز کام کےلئے  خرچ کر سکے۔

صورت مسؤلہ میں اگر سائل  اپنی بیوی کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو توسائل  پر شرعا بیوی کو الگ سے جیب خرچ دینا لازم تو نہیں ہے، البتہ  رہائش ،کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے کہ  اس کو  الگ سے ماہوار   کچھ جیب خرچ بھی دیا جائے جس کو بیوی اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتی ہو،  بیوی اس کو اپنے نان نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہے،سائل   اگر نہیں دیتا تو اس کو  شرعا اسےملامت نہیں کیا جا سکتا۔

3:واضح رہے کہ بہن بھائیوں کا نان نفقہ تب بھائی پر لازم ہوتا ہے جب ان کا اپنا کوئی ذاتی مال نہ ہو، بھائی کمائی کے قابل نہ ہوں، ان کے اصول و فروع (اولاد اور آباء) میں سے کوئی صاحبِ حیثیت موجود نہ ہو ورنہ تو نان نفقہ ان پر ہوگا بھائی پر لازم نہیں ہوگا، اسی طرح بہنیں شادی شدہ نہ ہوں اگر شادی شدہ ہیں تو ان کا نان نفقہ شوہروں کے ذمے ہے،اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ  خرچ کرنے والے بھائی کے پاس اپنے اور اپنی بیوی بچوں کے نان نفقہ سے زائد مال بھی موجود ہو، اگر زائد مال نہ ہو تب بھی بھائی پر بہنوں اور بھائیوں کا نان نفقہ لازم نہیں ہوگا۔

4: سائل  کو اللہ پاک نے جتنی وسعت اور استطاعت دی ہے اس کے مطابق سائل  اپنے اوپر خرچ کرے،اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اوپر خرچ کرنا چاہیے۔

وفي كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال :

"إن الله تعالى إذا أنعم على عبد نعمة يحب أن يرى أثر النعمة عليه، ويكره البؤس والتباؤس ويبغض السائل الملحف ويحب الحيي العفيف المتعفف."

(كتاب الزينة والتجمل ,الباب الأول: في الترغيب فيه,6/ 641الناشر : مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، ج:3، ص:572، ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، فإن نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر ... (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، مطلب الصغیر والمکتسب نفقۃ فی کسبہ لا علی ابیہ،3/612 ،ایچ ایم سعید)

مبسوط السرخسي ميں هے:

"والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه."

(کتاب النکاح، باب نفقۃ ذوی الارحام، ج:5، ص:223، ط:دارالمعرفۃ بیروت)

الموسوعہ الفقہیہ میں ہے:

"الحواشي هم الأقارب الذين ليسوا من عمودي النسب، كالإخوة وأبناء الإخوة والأخوال والخالات والأعمام والعمات ، وقد اختلف الفقهاء في نفقة الحواشي فمذهب الحنفية والحنابلة: أن النفقة تجب لهم في الجملة.....يشترط لوجوب نفقة الحواشي عند القائلين بها الشروط التي يجب توافرها في نفقة الأولاد وهي:

ا- أن يكون المنفق عليه فقيرا عاجزا عن الكسب، بسبب الصغر أو الأنوثة أو الزمانة أو العمى، لأنها أمارة الحاجة ولتحقق العجز، فإن القادر على الكسب غني بكسبه.

ب - أن يكون المنفق واجدا ما ينفقه فاضلا عن نفقة نفسه وعياله وخادمه."

(مادہ: نفقہ، نفقہ الحواشی، ج:41، ص:85، ط:طبع الوزارہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں