بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے پیچھے قراءت کرنا


سوال

اگر کوئی مقتدی امام کے پیچھے اتنی اونچی آواز سے قراءت کرے کہ امام سن سکتا ہو، تو کیا نماز ہو جائے گی؟

جواب

جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے  کسی قسم کی  قراءت کرنا خواہ وہ سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت، جائز  نہیں، نیز اس حکم میں سری اور جہری نمازوں میں کوئی فرق نہیں ،اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے ،البتہ اگر  کوئی شخص امام کے پیچھے قراءت کرے ،اور اس کی آواز   امام تک پہنچ جائے ،تو نماز ہو جائے گی۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ."(الأعراف :204)

ترجمہ:اور جب قرآن پڑھا جایا کرے،تو اس کی طرف کان لگا دیا کرواور خاموش رہو،امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة."

( كتاب اقامة الصلوة والسنة فيها،باب: إذا قرأ الإمام فأنصتوا،   ج: 1،ص :277 ،ط:دارإحياء الكتب العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت اس کی بھی قراءت ہے۔"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا..."

( كتاب الصلوة،باب التشهد في الصلاة،ج :2 ،ص :114 ،ط:دارالطباعة العامرة)

ترجمہ:" حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قراءت کرے تو بالکل خاموش رہو ۔۔۔ الخ"

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے

"(والمؤتم لايقرأ مطلقاً) ولا الفاتحة...( فإن قرأ كره تحريماً) و تصح في الأصح...الخ ."

( كتاب الصلوة ،باب صفبة الصلاة،  مطلب السنة تكون سنة عين و سنة كفاية ، ج:1 ،ص :544 ،ط :سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"مقتدی اگر بھول کر امام کے پیچھے قرآن یا دعا ءپڑھ دے ،تو کیا نماز مکروہ ہو گی ؟

الجواب حامدا ومصلیاً:

جی ہاں ،مگر بھول کی وجہ سے تخفیف ہو گی ۔فقط"

(کتاب الصلوۃ ،باب القراءۃ ،ج :7 ،ص:51 ،ط:ادارۃ الفاروق )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں