بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا وضو ٹوٹ جانے کے باوجود(53)آیتوں کی بقدرنماز جاری رکھنا


سوال

اگر امام کا نماز میں وضو ٹوٹ جائے، اور وہ وضو ٹوٹنے کے بعد 53 آیتوں کی تلاوت کرکے پھر نائب بنائے،اور نائب نے کچھ قرات کر کے رکوع کرلیاہو، تو ایسی صورت میں نماز ادا ہوگی یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ طہارت (باوضو ہونا)نماز کے لیے شرط ہے، بغیر وضو کے نماز صحیح نہیں ہوتی،لہٰذاصورتِ مسئولہ اگر امام نے لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو  ٹوٹنے کے باوجودفوراً بعد دوسرے کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ 53آیتوں کی بقدرنماز کو جاری رکھاتو  اس سے امام اور تمام مقتدیوں کی نماز فاسد ہوگئی،لہٰذا دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے،امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کو نماز فاسد ہونے کی اطلاع کردے،نیز امام کو علم ہونے کے باوجود نماز جاری رکھنے کی صورت میں اس پر  توبہ واستغفار کرنا بھی  لازم ہوگا۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية، والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب والبدن ومكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة."

 (كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة ،ج:1، ص:114، ط :  دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية.

(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال: المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لايؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ، ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لايؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الإستهانة، فحيث ثبتت الإستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافراً، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصاً: أي والإستخفاف في حكم الجحود.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة: وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية: لايكون كفراً، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الإستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفراً عند الكل. اهـ.

أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفًا و مستهينًا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الإستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفًا وهينًا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لايكون كفرا عند الكل، تأمل".

  (کتاب الطهارۃ، ج:1، ص:81، ط: سعید)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

(سوال)دوران نماز ایک شخص کا وضو ٹوٹ گیااسے اتناتومعلوم تھا کہ خروج ریح سے وضوٹوٹ جاتاہے،مگر نماز میں خروج ریح  ہوجانے پر نماز توڑ کر وضو کرکے نماز پڑھناچاہئےاسے اس بات کا علم نہ تھابلکہ اس کا خیال یہ رہا کہ نماز جیسی اہم عبادت کو توڑنا نہ چاہئےاس لیے اسی حالت میں نماز پوری کی اوربعد میں وضو کرکے دوبارہ نمازپڑھی،دریافت طلب امر یہ ہے کہ موجودہ صورت میں اس شخص کے ایمان ونکاح میں خلل آئے گا؟

(الجواب) بحالت نماز وضوٹوٹ جانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،ایسی حالت میں نماز جاری رکھنا سخت گناہ ہے،جہالت کی وجہ سے ایساہواہے؛ اس لیے اوراحکام(تجدیدنکاح ،تجدید ایمان)جاری نہ ہوں گے،توبہ واستغفار بکثرت کرتارہے،فقط۔

(زیرِ عنوان:جہالت کی وجہ سےنمازی نے وضو ٹوٹ جانے کے بعد نماز جاری رکھی توکیا حکم ہے؟ج:4، ص:72، ط: دارالاشاعت کراچی پاکستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں