میری اور میرے ماموں کی بیٹی کی تقریباً 3سال سے بات چیت ہے، ہم دونوں تقریباً ہم عمر ہیں، ہمارے گھر والوں کو کچھ عرصہ پہلے اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے ہمارا آپس میں رشتہ طے کردیااور کہا کہ آپ پڑھائی مکمل کرو، 4 سَال بعد آپ کی شادی کرادیں گے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈیڑھ سال تک ہمارے گھر والے نکاح کردیں اور 4 سال بعد رخصتی . ہماری آپس میں موبائل فون پہ بات چیت ہوتی ہے اورمیں خود مشت زنی بھی کر لیتا ہوں، تو گناہوں سے بچنے کےلیے لڑکی اور میں نے ولی کی اجازت کےبغیر درج ذیل طریقے سے نکاح کرلیا، لڑکی نے میرے دوست کو کال پہ اپنا وکیل مقرر کردیا، کہ آپ میری طرف سے ایجاب و قبول کرلیں، تو لڑکی کا وکیل جو کہ سائل کا دوست ہے اس نے دو گواہوں کی موجودگی میں ایک قاضی صاحب جو کہ نکاح کے گواہ بھی تھے اور دوسرا ایک بندہ بھی گواہ تھا ، تو لڑکی کےوکیل نے لڑکی کی جگہ ایجاب و قبول کرلیا، اور میں نے بھی ایجاب و قبول کرلیا، دلہن کا وکیل اور میں اور دو گواہ (قاضی خود گواہ + ایک اور گواہ) ایک ہی مجلس میں موجود تھےاور یہ سب عاقل بالغ مسلمان تھے، کیا ہمارا آپس میں نکاح ہوگیا ہے یا نہیں؟
نوٹ: واضح رہے کہ لڑکی کا وکیل جو سائل کا دوست ہے وہ لڑکی کا رشتہ دار نہیں ہے اور گواہ بھی لڑکی کے رشتے دار نہیں ہیں، لیکن لڑکے نے گواہوں کو اور وکیل کو لڑکی کامکمل تعارف کرادیا یہ نکاح ایک عام عاقل بالغ مسلمان نے پڑھا یا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب لڑکے نے اور لڑکی کے وکیل نے لڑکی کی طرف سے گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیا تو نکاح ہوگیا ہے۔
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144312100602
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن