بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت مکمل ہونے کے بعد مطلقہ کا خرچہ کس کے ذمہ ہے؟


سوال

وہ مطلقہ عورت جس کی عدت گزر چکی ہو،اور وہ خود کمانے پر قادر ہو،اور  اس کے دوبالغ بھائی اور دو بالغ بیٹے ہوں، اور یہ چاروں کمانے پر قادر ہوں ،تو ایسی مطلقہ عورت کا نفقہ کس کے ذمہ ہے، بیٹوں کے یا بھائیوں کے یا خود اس عورت کےذمہ ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ  عورت  کے پاس اگر اپنا مال نہ ہو،تو اس کا خرچہ شرعاً اس کے دو بالغ بیٹوں پر برابر سرابر عائد ہوتاہے، اور اگر اُن میں سے کوئی ایک غریب ہو،تو پھر پوراخرچہ دوسرے بیٹے پرلازم ہے،اور اگر دونوں بیٹے غریب ہوں،تو پھر مذکورہ عورت کا خرچہ اس کے دونوں بھائیوں پر لازم ہے۔

و قال تعالٰی:

" وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ  ."(سورة الاحزاب :33)

روح المعانی ميں ہے :

"والمراد علي جمع القراءات أمرهن رضي اللہ تعالي عنھن بملازمة البیوت وهو أمر مطلوب من سائر النساء، وأخرج الترمذي والبزار عن ابن مسعود رضي اللہ تعالي عنه عن النبي صلي اللہ علیه وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتها استشرفها الشیطان و أقرب ما تکون من رحمة ربّھا و هي في قعر بیتها ."

(ج: 11،ص: 253 ،ط: دارالإحياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأم إذا كانت فقيرة فإنه يلزم الابن نفقتها، وإن كان معسرا، أو هي غير زمنة، وإذا كان الابن يقدر على نفقة أحد أبويه، ولا يقدر عليهما جميعا فالأم أحق."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،  ٥٦٥/١، ط:رشيدية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (‌ولا ‌يشارك ‌الأب ‌والولد ‌في ‌نفقة ‌ولده ‌وأبويه ‌أحد) أما الأبوان فإن لهما تأويلا في مال الولد لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أنت ومالك لأبيك»، ولا تأويل لهما في مال غيره، ولأنه أقرب الناس إليهما فصار أولى بإيجاب النفقة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ٦٤/٣، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والمعتبر فيه القرب والجزئية لا الإرث) أي الأصل في نفقة الوالدين والمولودين القرب بعد الجزئية دون الميراث كذا في الفتح: أي تعتبر أولا الجزئية: أي جهة الولاد أصولا أو فروعا، وتقدم على غيرها من الرحم، ثم يقدم فيها الأقرب فالأقرب، ولا ينظر إلى الإرث."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ٦٢٣/٣،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں