بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارہ کی طرف سے ملازم کو مقررکردہ تنخواہ سے کم دینے کاحکم


سوال

 گورنمنٹ کی طرف سے کم از کم 37 ہزار تنخواہ مقرر کی گئی ہے ، اس سے کم تنخواہ دینا شرعی لحاظ سے کیسا ہے؟ ملازم اور مالک کی باہمی رضامندی سےمتعین کرنا لازم ہے، لہذا اگر کوئی ملازم اس پر راضی ہو کہ حکومتِ پاکستان کی مقرر کردہ اجرت سے کم لے تو اتنی اجرت مقرر کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شرعی طورپر ملازم اسی تنخواہ کا حق دارہوتاہے، جو   ادارہ اور ملازم کے  درمیان طے ہوجائے،لہذا صورت ِمسئولہ میں اگر گورنمنٹ کی طرف سے 37ہزار تنخواہ سرکاری ملازمین کے علاوہ دیگرملازمین کےلیےبھی مقررکی گئی ہے تومالکان کو اس کی پاسداری کرنی چاہےاور ملازم کو کم ازکم اتنی تنخواہ دینی چاہے ،لیکن اگرمالکان اس پر عمل نہ کرتے ہوں اور ملازمین اپنی رضامندی سےاس اجرت سےکم پر راضی ہوجاتےہوں تو فریقین کے درمیان طے شدہ اجرت کامعاملہ کرناجائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا 

قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة

 (قوله وظاهر التعليل إلخ) أي فقول الجوهرة ما دام يرعى منها شيئا لا مفهوم له. ورأيت بخط بعض الفضلاء أن مراد الجوهرة تحقيق تسليم نفسه بذلك لا شرط استحقاق الأجر كما فهم المصنف والمتون والتعليل يفيده اهـ وهو حسن. (قوله وبه صرح في العمادية) وهو الموافق لتصريح المتون بأنه يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل.‘‘

(کتاب الاجارۃ، مبحث الأجير الخاص، 69/6، ط : دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں