بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت کے بعد میاں بیوی کا اکٹھے رہنے کا حکم


سوال

اگر کوئی میاں بیوی بڑی عمر میں جا کر حرمتِ مصاہرت کے تحت ایک دوسرے پر حرام ہو جائیں اور پھر وہ دونوں ایک ہی گھر میں رہنا چاہیں،  تو کیا ان کے لیے ایک ساتھ رہنے کی کوئی گنجائش ہے  جب کہ طلاق نہ دی ہو  ؟اسی طرح ان دونوں کے رشتہ داروں میں سے کوئی ان کے پاس گھر پہ آئے تو کیا یہ دونوں اکٹھے ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں ؛ تاکہ ان کوپتہ نہ چلے؟باقی جب گھر پر کوئی اور نہ ہو تو احتیاط سے رہتے ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے بعد شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی سے علیحدگی اختیار کرے اور زبان سے کہہ دے کہ میں نے چھوڑ دیا یا طلاق دے دی، اس کے بعد دونوں کا ایک ساتھ رہنا جائز نہیں، البتہ اگر دونوں الگ رہائش اختیار نہیں کر سکتے ہوں اور دونوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو تو  پھر ایک ہی گھر میں پردے کے ساتھ ایسے رہنا کہ دونوں کا آمنا سامنا نہ ہو ، اور پوری احتیاط کی جائے  جائز ہے، غیر ضروری طور پر سامنے آنا یا بات چیت کرنا درست نہیں۔  تاہم اگر دونوں بالکل اکیلے ہوں اور ساتھ میں کوئی اولاد نہ ہو تو پھر ایک گھر میں رہنا بوجہ خوفِ گناہ  جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى".

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج:3،ص:538،ط:سعید)

الحیلۃ الناجزۃ میں ہے:

"اگر خاوند سے اپنی بیوی کے اصول یا فروع مؤنثہ میں سے کسی کے ساتھ کوئی ایسا فعل سرزد ہو جائے یا بیوی کے اصول و فروع مؤنثہ میں سے کسی مرد کے ساتھ ایسے افعال میں سے کسی کا ارتکاب کیا ہو جو حرمتِ مصاہرت کا موجب ہے، مثلاً شہوت کے ساتھ خوش دامن کو ہاتھ لگا دیا یا بیوی اپنے شوہر کے اصول و فروع مذکورہ مثلاً: خسر کے ساتھ کوئی فعل موجبِ حرمتِ مصاہرت کر بیٹھے یا خسر وغیرہ نے اس قسم کے فعل کا ارتکاب کیا ہو تو ان سب صورتوں میں یہ بیوی اس خاوند پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے،خواہ بھول چوک میں ہوگئے ہوں ،ہر حال میں ایک ہی حکم ہے۔ "

(ص:85،88،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں