بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاسٹل میں رہنے والا طالب علم ہاسٹل میں قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا ؟


سوال

میرا قیام پانچ سال سے لاہور میں پڑھائی کے لیے ہے ہاسٹل میں مگرمستقل رہائش سرگودھا میں ہے اس دوران میں لاہور سے سرگودھا آتا جاتا رہا مگر لاہور میں ہاسٹل میں کبھی بھی قیام پندرہ دن نہیں کیا صرف ایک مرتبہ پچھلے ماہ بیس دن رہا اور پوری نماز پڑھی لاہور میں پھر سرگودھا گیا اور تین دن بعد واپس لاہور آیا مگر اب بھی لاہور میں قیام پندرہ دن سے کم ہی رکھا تو کیا اب مجھے لاہور میں پوری نماز ادا کرنی ہو گی یا قصر نماز اس سارے عرصے میں میرا سامان لاہور کے ہاسٹل میں موجود رہا ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نےجب ایک دفعہ  ہاسٹل  میں پندرہ دن  سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے لاہورہاسٹل میں  قیام کیا ہو تو وہ  اس  کا وطنِ اقامت بن گیا، لہذا جب تک تعلیم کےسلسلے میں اس کا وہاں  آنا جانا لگا رہے گا اور کمرہ یا سامان وہاں موجود ہوگا  اس وقت تک وہ وہاں پر پوری نماز پڑھے گا البتہ اگر ہاسٹل میں پندرہ سے کم ٹھہرنے کی نیت تھی مگر اتفاقا بیس  دن ہوگئے تو پھر بھی ہاسٹل وطن اقامت نہیں بنا ہے اور قصر نماز پڑھنی ہوگی۔

البحرا لرائق میں ہے:

"(قوله: ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان رضي الله عنه كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر وقال إني تأهلت بمكة وقال النبي من تأهل ببلدة فهو منها والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله لأنه لو لم ينتقل بهم ولكنه استحدث أهلا في بلدة أخرى فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما وقيد بقوله بمثله لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا لأنه لم يتوطن غيره وفي المحيط ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له وقيل تبقى وطنا له لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ا هـ وفي المجتبى نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر".

( البحر الرائق، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر 2/147 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100581

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں