بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

ہسپتال کی مسجد میں جماعت ثانیہ


سوال

 یہاں سنٹر ہسپتال میں مسجد ہے ،اس مسجد میں لوگ نماز کے لیے آتے رہتے ہیں یعنی بیک وقت سارے لوگ اکٹھے نہیں ہوتے تو اس جماعت میں جماعت ثانیہ کا کیا حکم ہے جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مسجد سے مراد شرعی مسجد نہیں ہے، بلکہ مصلی ہے، تو وہاں دوسری جماعت کرائی جا سکتی ہے۔ تاہم اگر مسجد سے مراد شرعی مسجد ہے اور وہاں امام و موذن مقرر ہیں، تو وہاں دوسری جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) ... والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ".  

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ج:1، ص:552، ط: ايج ايم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں