بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندو اور اہل تشیع کے ساتھ کھانا کھانے کا حکم


سوال

ہندو اور شیعہ مذہب کے حضرات کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وہ غیر مسلم جو کہ مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو ، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے،لیکن دلی دوستی لگانا ہرگزجائز نہیں۔نیزبوقت  ضرورت غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھانے کی نوبت آجائے توان کےساتھ کھانے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ کھاناحلال ہواوربرتن پاک ہوں ،البتہ اسے عادت بنانا درست نہیں ہے۔

لہذاصورت مسؤلہ میں عام احوال میں بوقت ضرورت ہندواور  شیعہ کے ساتھ کھاناکھانا  جائز ہے،اسے عادت بنانا درست نہیں ہے۔ البتہ  ان کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوکر ان کے ساتھ کھانا کھانااوردوستی رکھنا جائز نہیں ،اسی طرح  ان کے ساتھ کھانےپینے کی صورت   میں عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہو  تو  ان کے ساتھ کھانا پینابھی جائز نہیں ۔

فتاوی  ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما .... وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما ‌الدوام ‌عليه فيكره كذا في المحيط."

(كتاب الكراهية،الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم،5/ 347،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں