بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ہوائی جہاز میں اوقات نماز کی تعیین اور مریخ میں نماز کا حکم


سوال

1۔ ہوائی جہاز میں اوقات نماز کی تعیین کیسے کریں  ؟

2۔ اگر مستقبل میں کوئی خلا یا مریخ پر جائے تو  کیا اس سے نماز ساقط ہو جائے گی ؟

جواب

1۔ ہوائی جہاز کے سفر کے دوران نماز سے متعلق سب سے پہلے خود کوشش  کرکے نمازوں کے اوقات معلوم کیے جائیں کہ سفر مغرب کی جانب ہے یا مشرق کی جانب؟ اور سفر کے دوران کن کن ممالک سے گزر ہوگا، اور اس دوران کون کون سی نماز کا وقت ہوگا،یہ تمام باتیں نمازی  کو خود معلوم کرنی چاہئیں،اور اگر نمازوں کے اوقات اور سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے اوقات جہاز میں کسی طرح معلوم ہوجائیں تواس کے مطابق عمل کرنا چاہیے،نیز اگر جہاز کا عملہ مسلمان ہو تو ان سے بھی راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے،البتہ اگر ایک نماز کی ادائیگی کے بعد مغرب کی طرف سفر کرنا ہوتو جو نماز پڑھ لی گئی پھر اسی نماز کا وقت دوسرے  ملک  میں  آجائے تو اس نمازکے  اعادہ کی ضرورت نہیں ۔

2۔خلا یا مریخ میں جانے سے نماز ساقط نہیں ہوگی ، اس لیے کہ  نماز  ایسی عبادت ہے جو ہر حالت میں فرض رہتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا}(النساء: 103)

ترجمہ: بیشک  نماز  مسلمانوں  پر فرض  ہے  اپنے مقرر وقتوں پر۔  ( معارف القرآن) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفاقد وقتهما) كبلغار، فإن فيها يطلع الفجر قبل غروب الشفق في أربعينية الشتاء (مكلف بهما فيقدر لهما) ... ولا يساعده حديث الدجال؛ لأنه وإن وجب أكثر من ثلثمائة ظهر مثلا قبل الزوال ليس كمسألتنا؛ لأن المفقود فيه العلامة لا الزمان، وأما فيها فقد فقد الأمران.

(قوله: حديث الدجال) قال الرملي في شرح المنهاج: ويجري ذلك فيما لو مكثت الشمس عند قوم مدة. اهـ. ح. قال في إمداد الفتاح قلت: وكذلك يقدر لجميع الآجال كالصوم والزكاة والحج والعدة وآجال البيع والسلم والإجارة، وينظر ابتداء اليوم فيقدر كل فصل من الفصول الأربعة بحسب ما يكون كل يوم من الزيادة والنقص كذا في كتب الأئمة الشافعية، ونحن نقول بمثله إذ أصل التقدير مقول به إجماعا في الصلوات ... وفي هذا الحديث ‌أن ‌ليلة ‌طلوعها من مغربها تطول بقدر ثلاث ليال، لكن ذلك لا يعرف إلا بعد مضيها لانبهامها على الناس، فحينئذ قياس ما مر أنه يلزم قضاء الخمس؛ لأن الزائد ليلتان فيقدران عن يوم وليلة وواجبهما الخمس.

(قوله: فقد فقد الأمران) لم أر من تعرض عندنا لحكم صومهم فيما إذا كان يطلع الفجر عندهم كما تغيب الشمس أو بعده بزمان لا يقدر فيه الصائم على أكل ما يقيم بنيته، ولا يمكن أن يقال بوجوب موالاة الصوم عليهم؛ لأنه يؤدي إلى الهلاك. فإن قلنا بوجوب الصوم يلزم القول بالتقدير، وهل يقدر ليلهم بأقرب البلاد إليهم كما قاله الشافعية هنا أيضا، أم يقدر لهم بما يسع الأكل والشرب، أم يجب عليهم القضاء فقط دون الأداء؟ كل محتمل، فليتأمل."

(کتاب الصلوۃ،ج: 1، ص:366،367، ط:سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

"ہوائی سفر میں دن بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہوجائے تو نماز روزہ کا حکم:

سوال:زید ہوائی جہاز کے ذریعہ مغرب کی سمت جارہا ہےسورج غروب نہیں ہو رہا تو نماز کس طرح ادا کرے اور روزہ کس وقت افطار کرے؟یا اس کے برعکس مشرق کی طرف جارہاہےجس کا دن بالکل چھوٹا رہے گا اس کی نماز اور روزہ کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب:(حوالہ مذکورہ بالا) ان عبارات سے ثابت ہوا کہ مغرب کی طرف جانے والا شخص اگر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ان اوقات میں ادا کرسکتا ہو تو ہر نماز اس کا وقت داخل ہونے پر ادا کرے اور اگر اس کا دن اتنا طویل ہوگیا کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازوں کا وقت نہیں آتا تو عام ایام میں اوقات نماز کے فصل کا اندازہ کرکے اس کے مطابق نمازیں پڑھے،یہی حکم روزہ کا ہے ۔۔۔ جو شخص جانبِ مشرق جا رہا ہے نماز کے اوقات اس پر گزرتے رہیں،ان اوقات میں نماز ادا کرے گا ۔"

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،ج: 4، ص:71، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں