بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال سے قرض ادا کرنا جائز نہیں ہے


سوال

كيا حرام مال سے   قرض ادا کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ  حرام مال سے اپنا  قرض ادا کرنا حرام مال کو ذاتی استعمال میں لانے کی ایک صورت ہے اور حرام مال کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے لہذا صورت مسئولہ میں حرام مال سے اپنا  قرض ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ حرام مال اگر اصل مالک تک  پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر   بغیر ثواب کی نیت کے (اس کے وبال سے بچنے کی نیت کے ساتھ) صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي  میں ہے:

" إن ها هنا شيئان:

أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء لا تقبل صلاة بغير طهور، ج1، ص38، دار التراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں