بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال سے دیا ہوا جہیز واپس لینے کا حکم


سوال

کیا بیٹی کوحرام مال سے دیا ہوا جہیز والد صاحب کا دوبارہ واپس لینا جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں والد نے  اگر جہیز کے  سامان کی  خریداری مطلق کی تھی یعنی یہ نہیں کہا تھا کہ میں حرام مال سے رقم ادا کروں گا تو اس صورت میں    حرام مال سے ادائیگی کرکے بیٹی کو جو جہیز کا سامان دیا تھا  تو بیٹی کی ملکیت اس مال پر ثابت ہوگئی تھی، اب والد بیٹی سے واپس  نہیں لے سکتا۔ والد پر لازم ہے کہ جتنے حرام مال کا جہیز خریدا تھا اتنی رقم بغیر ثواب کی نیت سے مستحق زکوۃ شخص کو صدقہ کردے۔ بیٹی کے لیے اس جہیز کے سامان کے استعمال کی شرعا گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس وقال أبو بكر كلاهما سواء ولا يطيب له

(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ."

(کتاب البیوع ، باب المتفرقات من ابوابہا  ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں