بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرم کی حدود میں جانور کو ذبح کر نا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

حرم کے حدود میں احرام کے علاوہ یعنی احرام نہ ہوجانور کو ذبح کر نا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ شریعت نے حدود حرم میں جانوروں کے شکار کرنے کو منع کیا ہے، البتہ پالتو جانوروں کو ذبح کرنا ممنوع نہیں، بلکہ جائز ہے۔

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

"فإن اختار التكفير بالهدي فعليه ‌الذبح في ‌الحرم."

(المبسوط لمحمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (ت ٤٨٣ هـ)، ج:4، ص:84، ط: مطبعة السعادة - مصر)

وفیہ ایضاً:

"(قال) وللمحرم ‌أن ‌يذبح الشاة والدجاجة لأن هذا ليس من الصيود فإن الصيد اسم لما يكون ممتنعا متوحشا فما لا يكون جنسه ممتنعا متوحشا لا يكون صيدا."

(المبسوط لمحمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (ت ٤٨٣ هـ)، ج:4، ص:94، ط: مطبعة السعادة - مصر)

"الجوهرة النيرة" میں ہے:

"قوله ولا بأس ‌أن ‌يذبح المحرم الشاة والبقرة والبعير والدجاج والبط الكسكري) لأن هذه الأشياء ليست بصيود."

(الجوهرة النيرة، لأبي بكر بن علي بن محمد الحدادي العبادي الزَّبِيدِيّ اليمني الحنفي (ت ٨٠٠ هـ)ج:1، ص:176، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوی عالمگیری" الفتاوى الهندية" میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المذكى وهو أن يكون حلالا، وهذا في الذكاة الاضطرارية دون الاختيارية....ولا يحل ما ذبحه المحرم من الصيد سواء ذبحه في الحل أو في الحرم، وكذا لا يحل ما ذبح في الحرم من الصيد سواء كان الذابح حلالا أو حراما، وهذا بخلاف ما إذا ذبح المحرم غير الصيد أو ذبح في الحرم غير الصيد؛ لأنه فعل مشروع، كذا في الكافي."

 (كتاب الذبائح ,الباب الأول في ركن الذبح وشرائطه وحكمه وأنواعه، ج:5، ص: 286، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں