بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمائی سے خریدی ہوئی گاڑی کرایہ پر لینا


سوال

اگر کسی شخص نے حرام کی کمائی سے گاڑی خریدی ہو تو اس شخص سے گاڑی کراۓ پر لے کر بطور ٹیکسی چلانا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں حرام رقم سے لی گئ گاڑی  کسی اور  شخص کے لیے کرایہ  پر لینا جائز ہے، اور کرایہ پر لینے والے شخص کے لیے اس گاڑی کو بطور ٹیکسی  چلا کر اس سے آمدنی حاصل کرنا بھی جائز ہے،   البتہ اگر اس کے بجائے  کوئی اور گاڑی کرایہ پر لے لے تو  زیادہ بہتر ہے۔

باقی  حرام رقم کا  حکم یہ ہے کہ یہ رقم مستحقِ زکاۃ شخص  کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردی جائے، اس کا استعمال کرنا شرعاً ناجائز ہے، اور اس رقم سے گاڑی لینا اور اسے کرایہ پر دینا جائز نہیں،  تاہم  اگر گاڑی  کی قیمت کے برابر  رقم  ثواب  کی نیت کے بغیر  مستحقینِ زکاۃ کو صدقہ کردی جائے تو  اس کے بعد اس گاڑی کے کرایہ کو استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، ورنہ نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے: 

"رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام."

(کتاب البیوع باب المتفرقات ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں