بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدن والے شخص کو سامان فروخت کرنے کا حکم


سوال

 اگر خریدنے والے کے پیسے حرام مال سے کمائے گئے ہیں اور وہ ایک گروسری سٹور سے سامان خرید رہا ہے، تو کیا بیچنے والے کے لیے خریدنے والے کے پیسے بیچنے کے بعد حلال ہوں گے؟

جواب

حرام آمدنی والا شخص گراسری اسٹور سے سامان خرید کر حرام آمدنی سے جو گراسری اسٹور والے کو قیمت ادا کرے گااس میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

۱)  اگر حرام ّآمدن والے شخص نے پہلے حرام رقم گراسری اسٹور والے کو حوالہ کی اور پھر حوالہ شدہ رقم سے سامان خریدا تو یہ رقم گراسری اسٹور والے کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

۲) اگر حرام آمدن والے شخص نے پہلے سامان خریدا اور پھر حرام آمدن والے روپے گراسری اسٹور والے کو حوالہ کردیے یا پھر حرام آمدن سے سامان خریدا اور حرام آمدن والی رقم کے علاوہ دوسری کوئی رقم سے ادائیگی کردی، یا سامان خریدا بغیر اس بات کی صراحت کیےہوئے کہ حرام سے خرید رہا ہوں یا حلال سے اور پھر حرام آمدن والی رقم حوالہ کردی یا خریداری حرام آمدن کے علاوہ سے کی اور حرام آمدن گراسری اسٹور والے کو دے دی تو ان تمام صورتوں میں گراسری اسٹور والے کے لیے رقم حلال ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس وقال أبو بكر كلاهما سواء ولا يطيب له وكذا لو اشترى ولم يقل بهذه الدراهم وأعطى من الدراهم»

(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها."

(کتاب البیوع، باب المتفرقات، ج نمبر ۵، ص نمبر ۲۳۵، ایچ ایم سعید)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"رنڈیوں کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرنے میں جو قیمت بائع کو حاصل ہو وہ قطعی حرام نہیں ہے ، بائع کے حق میں حلال ہے، اسی طرح ڈاکٹروں اور طبیبوں کو جو کچھ فیس ملے وہ بھی قطعی حرام نہیں ہے،  ہاں احتیاط یہ ہے کہ اس کو صدقہ کردیا جائے تا کہ خباثت ہے وہ رفع ہوجائے الخ۔"

(خرید و فروخت کا بیان، ص نمبر ۳۹۵،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100861

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں