بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حنفی امام کا فقہ شافعی کے مطابق سجدہ سہو کرنا


سوال

اگر حنفی امام شوافع کے طریقہ پر سجدہ سہو کرلے  جو کہ سلام سے قبل صرف دو سجدے اداکرتے ہیں ، پھر سلام پھیرے تو کیا نماز درست ہوگی؟

جواب

احناف اور شوافع کے درمیان سجدہ سہو کے طریقے میں اختلاف افضل و غیرافضل ہونے کا ہے، احناف کے  ہاں سجدہ سہو  سلام کے بعد افضل ہے اور شوافع کے ہاں سلام سے قبل سجدہ سہو کرنا افضل ہے۔احناف کی دلیل سنن ابی داؤد کی روایت ہے جس میں صراحتاً سلام کے بعد سجدہ سہو کا طریقہ بیان فرمایا گیا ہے۔نیز حضرت  عبداللہ بن مسعود،  عبداللہ بن عباس، انس بن مالک اور  دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہی عمل ثابت ہے؛ اس لیے احناف کے نزدیک ایک طرف سلام کے بعد سجدہ سہو زیادہ افضل ہے، لہذا حنفی امام کو اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے، عمداً اس کو ترک کے سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، تاہم اس طریقے کے مطابق سجدہ سہو کرنے سے نماز ادا ہوجائے گی۔

سنن أبي داود ـ - (1 / 401):

"عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير قال عمرو وحده عن أبيه عن ثوبان عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال « لكل سهو سجدتان بعد ما يسلم »". 

سنن ابن ماجہ،  (2 / 280):

"عن ثوبان ، قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : في كل سهو سجدتان بعد ما يسلم".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري - (6 / 373)

"ومنها أن فيه دليلًا عل أن سجدتي السهو بعد السلام وهو حجة على الشافعي ومن تبعه في أنهما قبل السلام وفي ( المغني ) السجود كله عند أحمد قبل السلام إلا في الموضعين اللذين ورد النص بسجودهما بعد السلام وهما إذا سلم من نقص في صلاته أو تحرى الإمام فبنى على غالب ظنه وما عداهما يسجد له قبل السلام نص على هذا في رواية الأثرم وبه قال سليمان بن داود وأبو خيثمة وابن المنذر وحكى أبو الخطاب عن أحمد روايتين أخريين إحداهما إن السجود كله قبل السلام والثانية أنها قبل السلام إن كانت لنقص وبعد السلام إن كانت لزيادة وهذا مذهب مالك وأبي ثور وبما قال أصحابنا الحنفية قال إبراهيم النخعي وابن أبي ليلى والحسن البصري وسفيان الثوري وهو مروي عن علي بن أبي طالب وسعد بن أبي وقاص وعبد الله بن مسعود وعبد الله بن عباس وعمار بن ياسر وعبد الله بن الزبير وأنس بن مالك رضي الله عنهم فإن قلت لو سجد للسهو قبل السلام كيف يكون حكمه عن الحنفية قلت قال القدوري لو سجد للسهو قبل السلام جاز عندنا هذا في رواية الأصول وروي عنهم أنه لا يجوز لأنه أداه قبل وقته وفي ( الهداية ) وهذا الخلاف في الأولوية وكذا قاله الماوردي في ( الحاوي ) وابن عبد البر وغيرهم".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201761

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں