بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہم جنس پرستی اور زنا سے بچنے کے لیے مشت زنی کرنا


سوال

اگر کوئی ہم جنس پرستی یا زنا سے بچنے کے لیے مشت زنی کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

اسلام ایک دین فطرت ہے اس کے تمام احکامات میں انسان کی فطری ضرورتوں کا لحاظ رکھا  گيا ہے ، انہی ضروریات میں سے نکاح بھی ہے ، نکاح ہماری فطرت کے عین مطابق ہے اور اگر گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوتو نکاح کرنا واجب ہوجاتا ہے  ، حدیث مبارک میں نکاح کو نظر اور شرم گاہ کی حفاظت کرنےوالا عمل قرار دیا گیا ہے،  چناں چہ  اگر کسی شخص پر شہوت کا غلبہ ہوجائے تو شریعت نے اس کو   نکاح کرنے کا حکم  دیا ہے جو کہ عین فطرت کے مطابق ہے ، لیکن اگر کوئی  شخص  جسمانی اعتبار سے تو نکاح کی طاقت رکھتا ہو لیکن مالی اعتبار سے  شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر روزے رکھنا لازم ہیں ، کیوں کہ روزوں کی وجہ سے جہاں تقوی کی بنیاد پر وہ گناہوں سے بچا رہتا ہے وہیں روزے کی حالت میں بھوکا اور پیاسا رہنے کی وجہ سے شہوت کا زور ٹوٹتا ہے ۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں سائل کامشت زنی کرنا ناجائز اورحرام ہے ، کئی احادیث میں اس فعلِ بد  پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اور اس فعل کے مرتکب پر لعنت کی گئی ہے، اور  ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالٰی قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف نظرِ کرم فرمائیں گے   ...... اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے )۔

اس لیے سائل کی  اگر  نکاح کی استطاعت ہے تو جلد ازجلد  نکاح کرنے کی کوشش کی جائے، ورنہ غلبہ شہوت سے بچنے کے لیے کثرت سے روزوں کا اہتمام کیا جائے، اور ساتھ نیک لوگوں کی صحبت میں  بیٹھنے کا اہتمام اور تنہائی میں رہنے سے اجتناب کیا جائے ، بدنظری سے مکمل پرہیز کرے۔

شعب الایمان میں ہے :

"عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا . قال البخاري في التاريخ."

(فصل في تحريم الفروج ومايجب التعفف عنها 7 / 329، ط:مكتبة الرشد)

سنن ابن ماجہ  میں ہے :

"عن علقمة بن قيس، قال: كنت مع عبد الله بن مسعود بمنى، فخلا به عثمان فجلست قريبا منه، فقال له عثمان: هل لك أن أزوجك جارية بكرا تذكرك من نفسك بعض ما قد مضى؟ فلما رأى عبد الله أنه ليس له حاجة سوى هذا، أشار إلي بيده، فجئت وهو يقول: لئن قلت ذلك، لقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب، ‌من ‌استطاع ‌منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء."

( باب ما جاء فی فضل النکاح1 /592، ط:دار احیاء الکتب)

فتاوی شامی میں ہے :

"ويكون واجبا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية وهذا إن ملك المهر والنفقة، وإلا فلا إثم بتركه بدائع (و) يكون (سنة) مؤكدة في الأصح فيأثم بتركه ويثاب إن نوى تحصينا وولدا (حال الاعتدال) أي القدرة على وطء ومهر ونفقة ورجح في النهر وجوبه للمواظبة عليه والإنكار على من رغب عنه (، ومكروها لخوف الجور) فإن تيقنه حرم ذلك... وفي الرد : قلت: وكذا فيما يظهر لو كان لا يمكنه منع نفسه عن النظر المحرم أو عن الاستمناء بالكف، فيجب التزوج."

(کتاب النکاح ،3 / 6 ط:ایچ ایم سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144407102177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں