کیا حافظہ عورت کا تراویح کی جماعت میں قرآن سنانا صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے؟
تراویح یا کسی بھی نماز میں عورتوں کی تنہا جماعت مکروہِ تحریمی ہے؛ لہٰذا عورتوں کو تنہا طور پر (یعنی عورت کی اقتدا میں) جماعت کے ساتھ تراویح نہیں پڑھنی چاہیے۔
قرآنِ کریم کو یاد رکھنے کا ذریعہ محض تراویح میں ایک مہینہ سنادینا نہیں ہے؛ بلکہ دیگر بہت سے طریقے قرآنِ کریم کو یاد رکھنے کے ہوسکتے ہیں، اپنی روزانہ کی نفل وغیرہ نمازوں میں پڑھتی رہے، اسی طرح دوسری عورتوں یا محرم مردوں کو نماز کے علاوہ سناتی رہے، نیز اپنی تراویح کی نماز میں بھی تنہا پڑھتی رہے، یہی مناسب اور بہتر ہے۔
"عن عائشة أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لا خیر في جماعة النساء إلا في المسجد أو في جنازة قتیل."(رواہ أحمد والطبراني في الأوسط)."
(مجمع الزوائد ۲؍۳۳ بیروت)
"فعلم أن جماعتهن وحدهن مکروهة."
(إعلاء السنن ۴؍۲۲۶)
'' عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه أنه قال: لا تؤم المرأة - قلت: رجاله کلهم ثقات''۔
(إعلاء السنن ۴؍۲۲۷ دار الکتب العلمیة بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
" ویکره تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح - إلی قوله - فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت".
قال الشامي:
"أفاد أن الصلاة صحیحة وأنها إذا توسطت لاتزول الکراهة وإنما أرشد و إلی التوسط؛ لأنه أقل کراهة التقدم".(شامي ۲؍۳۰۵)
وفیه أيضاً: "(قوله: ويكره تحريماً) صرح به في الفتح والبحر (قوله: ولو في التراويح) أفاد أن الكراهة في كل ما تشرع فيه جماعة الرجال فرض أو نفل". (1/565)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200646
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن