بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت آدم علیہ السلام کے بچوں کی شادیاں کیسے ہوئیں؟


سوال

حضرت آدم علیہ السلام کے بچوں کی شادیاں کس سے ہوئیں؟ 

جواب

حافظ  ابن کثیر رحمہ اللہ   لکھتے ہیں  کہ  اللہ تعالی نے  حضرت آدم علیہ السلام کے لیے یہ   جائز  قرار دیا تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے بیٹی اور  بیٹے  کی آپس  میں شادی کردیں، (  اس لیے کہ  یہ  اس وقت کے حالات   اور انسانی نسل چلانے کے لیے اللہ کی حکمت کا تقاضا تھا،) لیکن ان کے ہاں  ہر بار  ایک بیٹا اور ایک بیٹی اکٹھے پیدا ہوتے تھے،  اس  طرح وہ   بچوں کی شادی ان بچوں کے ساتھ کرتے تھے  جو ان کے علاوہ دوسری بار میں  پیدا ہوئے ہوں۔ ( گویا ہر مرتبہ کے حمل سے پیدا شدہ لڑکا لڑکی باہم حقیقی بہن بھائی کی طرح تھے، اور ان کا باہم نکاح درست نہیں تھا، جب کہ دوسرے حمل سے پیدا شدہ پہلے والوں کے لیے اسی طرح تھے جیسے چچیرے ہوتے ہیں)، یہی وجہ سے ہے کہ قابیل نے ہابیل سے اختلاف کیا، کیوں کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی خوب صورت تھی، جب کہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی قبول صورت تھی، اور قابیل کا اصرار تھا کہ اس کا نکاح اس کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کے ساتھ کیا جائے، جب کہ یہ حکمِ خداوندی کے خلاف تھا، اور قابیل اپنے موقف میں ناحق تھا، اسی کے فیصلے کے لیے آدم علیہ السلام نے دونوں بیٹوں کو قربانی پیش کرنے کا حکم دیا، اور قابیل کا ناحق ہونا واضح ہوا۔

حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ  ہی ناقل ہیں کہ سدی رحمہ اللہ   اپنی  سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں  کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اور  حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اوردوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے : 

آدم علیہ السلام  کے ہاں جو بھی بیٹا ہوتا تواس کے ساتھ بیٹی ضرور پیدا ہوتی تواس بچی کے ساتھ پیدا ہونے والا بچہ دوسرے بچے کے ساتھ پیدا ہونے والی بچی سے شادی کرتا ۔

تفسیر ابن کثير میں ہے: 

"و كان من خبرهما فيما ذكره غير واحد من السلف و الخلف، أن الله تعالى قد شرع لآدم عليه السلام، أن يزوج بناته من بنيه لضرورة الحال، و لكن قالوا: كان يولد له في كل بطن ذكر و أنثى، فكان يزوج أنثى هذا البطن لذكر البطن الآخر، و كانت أخت هابيل دميمة، و أخت قابيل وضيئة، فأراد أن يستأثر بها على أخيه، فأبى آدم ذلك إلا أن يقربا قربانًا، فمن تقبل منه فهي له، فقربا فتقبل من هابيل و لم يتقبل من قابيل فكان من أمرهما ما قصّ الله في كتابه.
ذكر أقوال المفسرين هاهنا :
قال السدي - فيما ذكر - عن أبي مالك وعن أبي صالح عن ابن عباس - وعن مرة عن ابن مسعود - وعن ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ; أنه كان لا يولد لآدم مولود إلا ولد معه جارية ، فكان يزوج غلام هذا البطن جارية هذا البطن الآخر ، ويزوج جارية هذا البطن غلام هذا البطن الآخر ، حتى ولد له ابنان يقال لهما : قابيل وهابيل وكان قابيل صاحب زرع ، وكان هابيل صاحب ضرع ، وكان قابيل أكبرهما ، وكان له أخت أحسن من أخت هابيل وإن هابيل طلب أن ينكح أخت قابيل فأبى عليه وقال : هي أختي ، ولدت معي ، وهي أحسن من أختك ، وأنا أحق أن أتزوج بها . فأمره أبوه أن يزوجها هابيل فأبى ، وأنهما قربا قربانا إلى الله عز وجل أيهما أحق بالجارية ، وكان آدم عليه السلام قد غاب عنهما ، أتى مكة ينظر إليها ، قال الله عز وجل : هل تعلم أن لي بيتا في الأرض ؟ قال : اللهم لا . قال : إن لي بيتا في مكة فأته . فقال آدم للسماء : احفظي ولدي بالأمانة ، فأبت . وقال للأرض ، فأبت . وقال للجبال ، فأبت . فقال لقابيل فقال : نعم ، تذهب وترجع وتجد أهلك كما يسرك . فلما انطلق آدم قربا قربانا ، وكان قابيل يفخر عليه ، فقال : أنا أحق بها منك ، هي أختي ، وأنا أكبر منك ، وأنا وصي والدي . فلما قربا ، قرب هابيل جذعة سمنة ، وقرب قابيل حزمة سنبل ، فوجد فيها سنبلة عظيمة ، ففركها فأكلها . فنزلت النار فأكلت قربان هابيل وتركت قربان قابيل فغضب وقال : لأقتلنك حتى لا تنكح أختي . فقال هابيل : إنما يتقبل الله من المتقين . رواه ابن جرير .
وقال ابن أبي حاتم : حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح حدثنا حجاج عن ابن جريج أخبرني ابن خثيم قال : أقبلت مع سعيد بن جبير فحدثني عن ابن عباس قال : نهي أن تنكح المرأة أخاها توأمها ، وأمر أن ينكحها غيره من إخوتها ، وكان يولد له في كل بطن رجل وامرأة ، فبينما هم كذلك ولد له امرأة وضيئة ، وولد له أخرى قبيحة دميمة ، فقال أخو الدميمة : أنكحني أختك وأنكحك أختي . قال : لا ، أنا أحق بأختي ، فقربا قربانا ، فتقبل من صاحب الكبش ، ولم يتقبل من صاحب الزرع ، فقتله . إسناد جيد."

(تفسير القرآن العظيم، سورة المائدة، رقم الآية: ٢٧)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207200550

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں