بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے دوران والد کی خدمت کے لیے جانا اور حج ادا کرنا


سوال

 میرے والد صاحب حج پر گئے ہیں وہاں انھیں دل کا دورہ پڑا ہے، وہ شدید علیل ہیں والدہ ان کے ساتھ ہیں لیکن وہ تمام معاملات نہیں دیکھ سکتیں، اور چو نکہ ان کا گروپ آگے جا چکا ہے اور ان دونوں کے خیال کے لیے میرے بھائی وہاں جانا چاہتے ہیں چونکہ اس سر زمین پر جائیں گے تو حج کی نیت بھی کرلیں تو میرا سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کیا حج کرنا درست ہے جب کہ بھائی پر حج فرض بھی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں  بھائی پر جب حج فرض ہے ،   تو ایسی صورت میں  والد کی خدمت کی نیت  کے ساتھ  حج کے لئے جانا درست ہے اس سے حج  فرض بھی ادا ہوجائیگا ، اور والد کی خدمت بھی ہو جائے گی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"أما الأول: فالحج فريضة ثبتت فرضيته بالكتاب، والسنة، وإجماع الأمة والمعقول.
أما الكتاب: فقوله تعالى: {ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا} [آل عمران: 97] ، في الآية دليل وجوب الحج من وجهين: أحدهما أنه قال {ولله على الناس حج البيت} [آل عمران: 97] ، وعلى: كلمة إيجاب والثاني أنه قال تعالى: {ومن كفر} [آل عمران: 97] قيل في التأويل: ومن كفر بوجوب الحج حتى روي عن ابن عباس - رضي الله عنه - أنه قال: أي ومن كفر بالحج فلم ير حجه برا، ولا تركه مأثما وقوله تعالى لإبراهيم - عليه الصلاة والسلام -: {وأذن في الناس بالحج} [الحج: 27] أي: ادع الناس ونادهم إلى حج البيت، وقيل: أي أعلم الناس أن الله فرض عليهم الحج، دليله قوله تعالى: {يأتوك رجالا وعلى كل ضامر} [الحج: 27] وأما السنة: فقوله - صلى الله عليه وسلم -: «بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان وحج البيت من استطاع إليه سبيلا» .وقوله - صلى الله عليه وسلم -: «اعبدوا ربكم وصلوا خمسكم، وصوموا شهركم، وحجوا بيت ربكم، وأدوا زكاة أموالكم طيبة بها أنفسكم تدخلوا جنة ربكم» .وروي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من مات ولم يحج حجة الإسلام من غير أن يمنعه سلطان جائر، أو مرض حابس، أو عدو ظاهر، فليمت إن شاء يهوديا، وإن شاء نصرانيا، أو مجوسيا» .وروي أنه قال: «من ملك زادا وراحلة تبلغه إلى بيت الله الحرام فلم يحج، فلا عليه أن يموت يهوديا أو نصرانيا» .وأما الإجماع: فلأن الأمة أجمعت على فرضيته."

(كتاب الحج،فصل في بيان فرضية الحج،ج:2،ص:118،ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں