بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں کتنے فرائض ہیں؟


سوال

 ہم نے اب تک غسل میں تین فرض سنے تھے، لیکن ایک صاحب کہہ رہے ہیں کہ عورت کے غسل میں چار فرض ہوتے ہیں اور چوتھا فرض یہ ہے کہ وہ اپنی انگلیوں میں کپڑا لپیٹ کر شرم گاہ کو صاف کرے۔ کیا واقعی عورت کے غسل میں چار فرائض ہیں؟

جواب

غسل میں اصولی طور پر تو ایک ہی فرض ہے یعنی پورے جسم میں جہاں تک تکلیف ومشقت کے بغیر پانی پہنچ سکے وہاں تک پانی پہنچانا، لیکن فقہاء کرام نے  اسے آسان اور منضبط کرنے کے لیے غسل کے  تین فرائض بیان کیے ہیں:

۱-منہ بھر کر کلی یا غرارہ کرنا۔

۲-ناک کی نرم ہڈی تک پانی چڑھانا۔

۳- پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔

نیز  غسل کرنے سے قبل ہی چھوٹا بڑا استنجا کرلینا چاہیے ، یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہوں کو دھولیاجائے، اگرچہ ان پر کوئی نجاست نہ لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھولیاجائے ،   پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی وغیرہ لگی ہو تو اس کو پاک کردیاجائے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرد و عورت دونوں کے غسل میں تین ہی فرائض ہیں، لہٰذا عورت کے لیے غسل میں انگلیوں پر کپڑا لپیٹ کر اس کپڑے سے شرم گاہ کو صاف کرنے کو فرض قرار دینا اور یہ کہنا کہ عورت کے غسل میں چار فرائض ہوتے ہیں،  درست نہیں ہے، ہاں عورت کے لیے شرم گاہ کے خارجی حصے کو بھی دھونا چاہیے؛ کیوں کہ یہاں پانی پہنچانے میں حرج نہیں ہے، اسی بات کو فقہاءِ کرام نے صراحتًا ذکر کردیا ہے، جیسے کہ ناف میں پانی ڈالنے اور  انگوٹھی پہنی ہو تو اس کے نیچے پانی پہنچانے  وغیرہ  کی تاکید بھی فقہاءِ کرام نے کی ہے، لیکن یہ سب چیزیں مستقل فرائض نہیں ہیں۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 151):

"(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي، كما مر، وبالغسل المفروض، كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون، كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عباً؛  لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغةً داخلة تبعاً شرعاً (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحباً لا شرطاً، خلافاً لمالك (ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرةً كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً؛ لما في {فاطهروا} [المائدة: 6] من المبالغة (وفرج خارج)؛ لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولاتدخل أصبعها في قبلها، به يفتي.

(قوله: وفرض الغسل) الواو للاستئناف أو للعطف على قوله: أركان الوضوء، والفرض بمعنى المفروض. والغسل بالضم اسم من الاغتسال، وهو تمام غسل الجسد، واسم لما يغتسل به أيضاً، ومنه في حديث ميمونة: "فوضعت له غسلاً" مغرب، لكن قال النووي: إنه بالفتح أفصح وأشهر لغةً، والضم هو الذي تستعمله الفقهاء، بحر.
(قوله: ما يعم العملي) أي ليشمل المضمضة والاستنشاق فإنهما ليسا قطعيين؛ لقول الشافعي بسنيتهما. اهـ. ح.
(قوله: كما مر) أي في الوضوء، وقدمنا هناك بيانه.
(قوله: وبالغسل المفروض) أي غسل الجنابة والحيض والنفاس سراج فأل للعهد.
(قوله: يعني إلخ) مأخوذ من المنح. قال ط: والمراد بعدم الفرضية أن صحة الغسل المسنون لاتتوقف عليهما، وأنه لايحرم عليه تركهما. وظاهر كلامه أنهما إذا تركا لايكون آتياً بالغسل المسنون، وفيه نظر؛ لأنه من الجائز أن يقال: إنه أتى بسنة وترك سنةً، كما إذا تمضمض وترك الاستنشاق. اهـ.
أقول: فيه أن الغسل في الاصطلاح غسل البدن، واسم البدن يقع على الظاهر والباطن إلا ما يتعذر إيصال الماء إليه أو يتعسر كما في البحر، فصار كل من المضمضة والاستنشاق جزءًا من مفهومه فلاتوجد حقيقة الغسل الشرعية بدونهما، ويدل عليه أنه في البدائع ذكر ركن الغسل وهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج، ثم قسم صفة الغسل إلى فرض وسنة ومستحب، فلو كانت حقيقة الغسل الفرض تخالف غيره لما صح تقسيم الغسل الذي ركنه ما ذكر إلى الأقسام الثلاثة، فيتعين كون المراد بعدم الفرضية هنا عدم الإثم كما هو المتبادر من تفسير الشارح لا عدم توقف الصحة عليهما، لكن في تعبيره بالشرطية نظراً لما علمت من ركنيتهما، فتدبر.
(قوله: غسل كل فمه إلخ) عبر عن المضمضة والاستنشاق بالغسل لإفادة الاستيعاب أو للاختصار كما قدمه في الوضوء، ومر عليه الكلام، ولكن على الأول لا حاجة إلى زيادة كل.
(قوله: ويكفي الشرب عباً) أي لا مصاً، فتح، وهو بالعين المهملة، والمراد به هنا الشرب بجميع الفم، وهذا هو المراد بما في الخلاصة، إن شرب على غير وجه السنة يخرج عن الجنابة وإلا فلا، وبما قيل: إن كان جاهلاً جاز وإن كان عالماً فلا: أي لأن الجاهل يعب، والعالم يشرب مصاً كما هو السنة".(قوله: لأن المج) أي طرح الماء من الفم ليس بشرط للمضمضة، خلافاً لما ذكره في الخلاصة، نعم هو الأحوط من حيث الخروج عن الخلاف، وبلعه إياه مكروه، كما في الحلية".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں