بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ میں میراث کے جاری ہونے کا حکم


سوال

جی پی فنڈ میں میراث جاری ہونا ، دلائل کے ساتھ جواب  عنایت فرمائیں۔

جواب

 واضح رہے کہ گورنمنٹ  ملازمین کی تنخواہ سے جو ہر ماہ جبری کٹوتی کرتی ہے  اور اس پر منافع کے نام سے اضافی رقم دیتی ہے اور اس میں ملازم کا کوئی اختیار نہیں ہوتا  تو شرعًا یہ ملازم کے حق میں سود  نہیں ہے،  ملازمین کے لیے اصل رقم اور اضافہ  لینا شرعاً جائز  ہے، اس لیے ملازم نے اپنی رضامندی سے رقم جمع نہیں کروائی، ادارہ اس سے جس طرح بھی نفع کمائے ملازم اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اور قانوناً وشرعاً ابھی تک مذکورہ رقم اس کی ملکیت میں بھی نہیں ہوتی؛ لہٰذا اس کے لیے اضافی رقم لینا جائز ہوگا۔

اور جن صورتوں میں ملازمین جبری اور غیر اختیاری کٹوتی کے علاوہ اپنے اختیار سے بھی رقم کٹواتے ہیں  تو اس کا حکم یہ ہے کہ   جتنی کٹوتی جبراً ہوئی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز  ہے اور جتنی رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زائد رقم لینا جائز نہیں۔

پس صورتِ مسئولہ میں جن صورتوں میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی پر ملنے والی اضافی رقم کا لینا جائز ہے تو اس میراث بھی جاری  ہوگی اور  ورثاء کے لیے اس کا لینا بھی جائز ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، ج: 7 / ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ سے متعلق لکھتے ہیں:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں