گڈ ول کی قیمت لگانا شرعاً کیسا ہے؟
واضح رہے کہ گڈول(Goodwill) کوئی ایسی چیز نہیں جس کا خارج میں کوئی وجود ہو اور اس کی قیمت لگائی جائے، بلکہ یہ ایک حیثیتِ عرفیہ ہے یا نیک نامی ہے،اس کے عوض رقم لینا یا اس کی قیمت مقرر کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"گڈول یعنی ’’نام‘‘ درحقیقت مال نہیں، بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جوبھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے"۔
(فتاوی محمودیہ : کتاب البیوع، باب بیع الحقوق المجردۃ (16/ 178)، ط۔ جامعه فاروقيه کراچی)
امدادالاحکام میں ہے :
" محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوق گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے "۔
(امداد الاحکام: کتاب البیوع، (3/ 454)، ط۔مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"قوله ( لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة على الملك ) قال في البدائع الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها، أقول وكذا لا تضمن بالاتلاف ".
(حاشية ابن عابدين:كتاب البيوع، مطلب لا يجوز الاعتياض الحقوق المجردة (4/ 518)، ط. سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404100039
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن