بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گولے کے ذریعے شکار کی گئی مچھلیوں کا حکم


سوال

ہمارے ہاں مچھلی کا گولے  سے شکار کیا جاتا ہے، پہلے مچھلیوں کو خوراک ڈالی جاتی ہے، پھر جب مچھلیاں جمع ہوں تو گولا پھینکتے ہیں، جس سے وہاں پر موجود ساری مچھلیاں مرجاتی ہیں اور پانی پر تیرنے لگتی ہیں، پھر ان کو پکڑ لیا جاتا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

جواب

گولے کے ذریعے شکار کی گئی مچھلی حلال ہے، اس کا کھانا جائز ہے،البتہ اگرگولے کا اثر مچھلی کے گوشت میں  شامل ہوکر مضرِ صحت ہو تو اس کے ذریعے شکار سے اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا) يحل (حيوان مائي إلا السمك) الذي مات بآفة ولو متولدًا في ماء نجس ولو طافية مجروحة وهبانية (غير الطافي) على وجه الماء الذي مات حتف أنفه وهو ما بطنه من فوق، فلو ظهره من فوق فليس بطاف فيؤكل كما يؤكل ما في بطن الطافي، وما مات بحر الماء أو برده وبربطه فيه أو إلقاء شيء فموته بآفة، وهبانية.

(قوله: وما مات بحر الماء أو برده) وهو قول عامة المشايخ، وهو أظهر وأرفق تجنيس، وبه يفتى، شرنبلالية عن منية المفتي (قوله: وبربطه فيه) أي الماء؛ لأنه مات بآفة، أتقاني، وكذا إذا مات في شبكة لايقدر على التخلص منها، كفاية (قوله: أو إلقاء شيء) وكان يعلم أنها تموت منه. قال في المنح: أو أكلت شيئًا ألقاه في الماء لتأكله فماتت منه وذلك معلوم ط (قوله: فموته بآفة) أي جميع ما ذكر وهو الأصل في الحل كما مر."

(كتاب الذبائح، ج:6، ص:306، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں