بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گرہن کتنے وقت تک رہتا ہے؟


سوال

گرہن کتنے وقت تک رہتا ہے؟

جواب

گرہن کتنی دیر تک رہتاہے؟ اس کا تعلق شرعی مسئلے سے نہیں ہے، اس کا تعلق قدرت کے تکوینی نظام سے ہے، رب تعالیٰ کو جتنے وقت تک گرہن کرنا منظور ہوتاہے اتنے وقت تک گرہن رہتاہے، اور تجربات کی روشنی میں انسان اس کا تقریبی تخمینہ لگاتاہے کہ اتنے وقت تک گرہن رہے گا، پھر ضروری نہیں کہ بعینہ اتنے وقت تک گرہن رہے، بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ انسانوں کے بتائے ہوئے وقت پر گرہن ہوجائے، چناں چہ انسانی تخمینوں میں فرق بھی آتاہے، اور بعض اوقات انسانی اندازے بالکل غلط جاتے ہیں۔

بہرحال ہمارے لیے گرہن میں جو عبرت ہے وہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمادی ہے، اور اس مناسبت سے جو عمل شرعی طور پر ہمیں کرنا چاہیے وہ بھی رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کرکے بتادیاہے۔

سورج اور چاند گرہن کی حقیقت:

سورج اور چاند گرہن اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے نشانیاں  ہیں، اس کی من جملہ حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ جو قادرِ مطلق ذات  سورج سے روشنی دیتی ہے اور چاند سے چاندنی دیتی ہے، وہی ذات  ان کو ماند  کردینے پر بھی قادر ہے۔ گویا سورج اور چاند کو دنیا میں بے نور کرکے قیامت کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے، شاید اسی مناسبت سے رسول اللہ ﷺ کو سورج گرہن کی نماز کی امامت کے دوران جنت اور جہنم کے مناظر دکھائے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے (نمازِ کسوف کے دوران) جنت کے انگور کا ایک خوشہ تھام لیا تھا، (لیکن پھر چھوڑ دیا) اگر میں اسے لے لیتا تو تم لوگ اس میں سے (ہمیشہ) کھاتے رہتے جب تک دنیا باقی رہتی۔اور میں نے جہنم بھی دیکھی، چناں چہ آج سے زیادہ ہول ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ الخ 

رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال  کے بعد  سورج گرہن ہوگیا، اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات  یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔

"بخاری شریف " میں ہے:

" حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔

لہذا چاند گرہن  اور سورج گرہن کے وقت  ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات  کے مطابق  اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر  نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے، البتہ چاند گرہن کے موقع پر جماعت سے نماز نہیں ہے، بلکہ انفرادی طور پر نوافل ادا کرنے چاہییں، اور سورج گرہن کے موقع پر جماعت سے نماز ادا کرنا مستحب ہے۔

صحيح البخاري (2/ 39):

"حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود مارأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»".

باقی سورج گرہن کتنی دیر تک رہتا ہے اس کے لیےکوئی ضابطہ مقرر نہیں ہے، بعض مرتبہ تو گرہن کے موقع پر اللہ تعالیٰ دن میں رات کا سماں پیدا فرما دیتے ہیں، بعض مرتبہ رات کا سماں تو نہیں ہوتا، بلکہ روشنی میں کچھ کمی واقع ہو جاتی ہے، لہذا اس میں وقت کی کوئی تحدید نہیں, بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور ارادہ پر موقوف ہے، وہ جتنی دیر چاہے اس کو باقی رکھے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں