بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل جنابت کا مسنون طریقہ


سوال

غسل جنابت کا مسنون طریقہ دلائل سمیت بتلادیجیے!

جواب

غسلِ جنابت کا مسنون طریقہ:

غسل کرتے وقت سب سے پہلے دل میں نیت کرے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کے لیے غسل کرتا ہوں، یا یوں نیت کرے کہ میں پاک ہوکر عبادت کرنے کے لیے غسل کرتا ہوں، پھر دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین بار دھوئے، پھر چھوٹا بڑا استنجا کرے یعنی چھوٹی بڑی دونوں شرم گاہ کو دھوئے اگرچہ ان پر کوئی نجاست نہیں لگی ہو، اور اگر نجاست لگی ہو تو اس نجاست کو بھی دھوئے، پھر اگر جسم پر کہیں اور کوئی نجاست جیسے منی وغیرہ لگی ہو تو اس کو پاک کردے، پھر مکمل وضو کرے، وضو اسی طریقے پر کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اور اس میں وضو کے فرائض، سنتوں اور آداب کی رعایت کرے، پھر پورے جسم پر تین بار اچھی طرح پانی بہائے کہ جسم کی کوئی جگہ خشک نہ رہے، جسم پر پانی بہاتے ہوئے ہاتھ سے جسم کو ملتا بھی رہے۔ جسم پر پانی ڈالنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین بار سر پر پانی ڈالے، پھر تین بار دائیں کندھے پر، پھر تین بار بائیں کندھے پر، اس طرح تین بار پانی بہائے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے۔  

غسلِ جنابت کے فرائض:

1:ایک باراچھی طرح کلی کرنا۔

2:ایک بار اچھی طرح ناک میں پانی ڈالنا کہ نرم حصے تک پانی پہنچ جائے۔ 

3:ایک بار پورے جسم پر اچھی طرح پانی بہانا کہ ذرہ برابر بھی کوئی جگہ خشک نہ رہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل) كل (فمه) ويكفي الشرب عبا؛  لأن المج ليس بشرط في الأصح (وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية، وحينئذ فالرأس والعنق واليد والرجل خارجة لغة داخلة تبعا شرعا (لا دلكه) لأنه متمم، فيكون مستحبًا لا شرطاً، خلافاً لمالك. 

(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلداً لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي. (لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)". (مطلب فى ابحاث الغسل، ج:1، ص:152، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

" (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع (ثم يتوضأ) أطلقه فانصرف إلى الكامل، فلايؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل، على أنه لايوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء، وقالوا: لو توضأ أولا لايأتي به ثانياً؛ لأنه لايستحب وضوءان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثاً مستوعباً من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم  الإسراف. وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني (بادئاً بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبا، وقيل: يثني بالرأس، وقيل: يبدأ بالرأس وهو الأصح."

(مطلب سنن الغسل، ج:1، ص:156، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144204200022

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں