اگر کسی کی ناک کی ہڈی ٹیڑھی ہوجاۓ تو غسل میں پانی آگے نہ جاۓ تو جائز ہے؟
غسل میں منہ بھر کر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے سے فرض ادا ہوجائے گا۔ تاہم غیر روزہ دار کے لیے غرارہ کرنا اور ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا سنت ہے، لہذا جہاں تک سہولت سے پانی پہنچ سکے وہاں تک پہنچائے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) ركنه فهو إسالة الماء على جميع ما يمكن إسالته عليه من البدن من غير حرج مرةً واحدةً حتى لو بقيت لمعة لم يصبها الماء لم يجز الغسل، وإن كانت يسيرة لقوله تعالى: {وإن كنتم جنبا فاطهروا} [المائدة: 6] ، أي: طهروا أبدانكم، واسم البدن يقع على الظاهر، والباطن فيجب تطهير ما يمكن تطهيره منه بلا حرج، ولهذا وجبت المضمضة، والاستنشاق في الغسل، لأن إيصال الماء إلى داخل الفم، والأنف ممكن بلا حرج، وإنما لايجبان في الوضوء لا، لأنه لايمكن إيصال الماء إليه بل، لأن الواجب هناك غسل الوجه، ولا تقع المواجهة إلى ذلك رأسًا."
(فصل الغسل، کتاب الطہارۃ، جلد 1 ص:34، ط:دار الکتب العلمیۃ)
فتاوى هنديہ میں ہے:
"وحد المضمضة استيعاب الماء جميع الفم وحد الاستنشاق أن يصل الماء إلى المارن. كذا في الخلاصة."
(الفصل الثاني في سنن الوضوء، كتاب الطهارة، جلد1 ص:6 ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100009
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن