بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 رجب 1446ھ 21 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر غسل کے بعد نیت کرنے نہ کرنے میں شک ہو، تو کیا حکم ہے؟


سوال

غسل کے وقت اگر غسل کے تین فرائض پورے کیے ہیں، پر اب نیت پہ شک ہے کہ نیت تھی کہ نہیں؟ پر فرائض تینوں پورے کیے ہیں، بلکہ سنت کے مطابق پہلے وضو بھی کیا ہے، تو کیا غسل ہو گیا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر غسل کو مع اس کے فرائض کے پورا کرلیا ہے، تو غسل ہوگیا ہے، نیت میں شک ہونے سے غسل صحیح ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بالفرض اگر نیت نہ بھی کی ہو، تب بھی غسل صحیح اور درست ہے؛ کیوں کہ وضوء اور غسل صحیح ہونے کے لیے نیت ضروری نہیں ہے، بلکہ سنت ہے۔

﴿رد المحتار على الدر المختار﴾  میں ہے:

"(وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب.

(قوله: كسنن الوضوء) أي من البداءة بالنية والتسمية والسواك والتخليل والدلك والولاء إلخ وأخذ ذلك في البحر من قوله ثم يتوضأ."

(كتاب الطهارة، فرض سنن الغسل، ج: ١، ص: ١٥٦، ط: سعید)

﴿الفتاوي الهندية﴾  میں ہے:

"يسن أن يبدأ بالنية بقلبه ويقول بلسانه نويت الغسل لرفع الجنابة أو للجنابة ثم يسمي الله تعالى عند غسل اليدين ثم يستنجي. كذا في الجوهرة النيرة. وأن لا يسرف في الماء ولا يقتر، وأن لا يستقبل القبلة وقت الغسل وأن يدلك كل أعضائه في المرة الأولى وأن يغتسل في موضع لا يراه أحد ويستحب أن لا يتكلم بكلام قط وأن يمسح بمنديل بعد الغسل. كذا في المنية."

(کتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الثاني في سنن الغسل، ج: ١، ص: ١٤، ط: رشيدية)

فقط واللہ تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144603103190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں