بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلم کو بھائی کہنے سے کفر کا حکم


سوال

کیا کسی غیر مسلم یعنی قادیانی، ہندو، عیسائی یا یہودی وغیرہ کو بھائی کہنے سے کوئی مسلمان کافر ہو جاتا ہے؟

جواب

بھائی بندی یا اخوت کا اصل معنی ولادت میں شریک ہونا ہے، لیکن کبھی کبھار کسی اور شریک کے لیے بھی اس کااستعمال ہوتا ہے، جیسا کہ قبیلہ، پیشہ، دین، معاملات یا محبت یا کسی اور تعلق کی بنا پر دو شریکوں کو بھائی کہا جاتا ہے، اور ہر وہ چیز جس میں اتفاق ہو اس پر بھی "اُخُوۃ" یعنی بھائی چارہ کا اطلاق کردیا جاتا ہے،  اور سب سے مضبوط بھائی چارہ دین کی نسبت سے ہے؛ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو صرف مؤمنوں کے درمیان قائم رکھا، نہ کہ کسی اور کے درمیان۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10]    ترجمہ: ’’بے شک مؤمن آپس میں بھائی ہیں۔" (سورۂ حجرات ۱۰)

اور یہ اخوت صرف اہلِ ایمان کے لیے ثابت ہے، اور کافروں اور غیر مسلموں کے ساتھ معاشرتی تعلقات اور حسنِ سلوک اور بیع وشرا وغیرہ تو صحیح ہیں، لیکن ان کے ساتھ دلی اور قریبی تعلقات اور دوستیاں کرنے سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر کوئی کرے تو اس طرح کرنا گناہ کا سبب ہے، یہ مطلقًا کفر کا سبب نہیں ہے۔

بصورتِ مسئولہ غیرمسلم کو بھائی کہنے کی چند صورتیں ہے، جس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے :

1- کافر اگر نسبی بھائی ہو، جیسے دو بھائی کافر تھے ان میں سے ایک مسلمان ہوگیا، اور دوسرا کافر ہی ہے، تو مسلمان بھائی نسبی بھائی ہونے کے ناطے غیر مسلم کو بھائی کہہ سکتا ہے۔

2- کافر نسبی بھائی نہیں ہے، اور اس سے دلی مودت و محبت اور تعلقات بھی نہیں ہیں، اور دینی  اور ایمانی بھائی بھائی بھی نہ سمجھا جائے، محض معاشرتی برتاؤ   کی وجہ سے اس کو بھائی کہہ دیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

3- کافر نسبی بھائی نہیں ہے، اور اس کو "بھائی" قریبی تعلقات اور محبت کی وجہ سے کہا جائے، اور اس سے بھائی چارگی کا مقصد دلی تعلقات، اور محبت کی ترجمانی ہوتو یہ جائز نہیں ہے۔

4- کافر کو دینی اور ایمانی بھائی سمجھا جائے، یہ بھی جائز نہیں ہے۔ بلکہ اگر اس کے کفر پر راضی ہو یا کفار سے دلی تعلق کا جائز سمجھتا ہو تو ایمان کو خطرہ ہے، دینی اور ایمانی بھائی صرف اور صرف مسلمان ہیں۔ اس کی توضیح میں قاضی بیضاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’اس لیے    ان کی اصل ایمان ہے، جو اَبدی اور اَزلی حیات کی موجب ہے‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلم کو ملت، مذہب، اور محبت ومودت کے لحاظ سے بھائی کہنا جائز نہیں ہے، اور اگر کوئی کہے تو وہ گناہ گار ہوگا، اسے کافر نہیں کہا جائے گا، الا یہ کہ وہ کفار سے دلی دوستی اور محبت کو جائز سمجھتا ہو یا اُن کے مذہب کو بھی حق کہتا ہو۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (12/ 289):

’’ قَوْله: (الْمُسلم أَخُو الْمُسلم) ، يَعْنِي أَخُوهُ فِي الْإِسْلَام، وكل شَيْئَيْنِ يكون بَينهمَا اتِّفَاق تطلق عَلَيْهِمَا اسْم الْأُخوة. وَقَوله: الْمُسلم، تنَاول الْحر وَالْعَبْد والبالغ والمميز‘‘. 

دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين (3/ 18):

’’ (وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: المسلم أخو المسلم) قال تعالى: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} (الحجرات: 10) قال البيضاوي: أي من حيث إنهم منسوبون إلى أصل وهو الإيمان الموجب للحياة الأبدية اهـ. ورتب على هذه الأخوة المقتضية لمزيد الشفقة والتناصر والتعاون‘‘. 

الأم للشافعي (6/ 40):

’’ وقوله {فَمَنْ عُفِيَ لَه مِنْ أَخِيْهِ شَيْءٌ} [البقرة: 178]؛ لأنه جعل الأخوة بين المؤمنين فقال: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ} [الحجرات: 10] وقطع ذلك بين المؤمنين والكافرين. ودلت سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم على مثل ظاهر الآية‘‘.

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں