اگر کسی غیر مسلم ملک میں کسی غیر مسلم کی چیز بطورِ لقطہ پائے تو اس کا بھی مسلمان والا حکم ہوگا یا نہیں؟
لقطہ کا حکم یہ ہے(کہ اگر کوئی شخص اس کو اٹھالے تو حتی الوسع اس کی تشہیر کرے،اور جب اس کو غالب گمان ہو جائے کہ اس کامالک نہیں آئے گا تو حفاظت کی نیت سے اپنے پاس رکھ لے، یا مالک کی طرف سے صدقہ کردے، اور اگر خود فقیر ہو تو خود بھی استعمال کرسکتا ہے ،لیکن ان دونوں صورتوں میں اگر مالک آجائے اور مطالبہ کرے تو اس پر اس چیز کی مثل یا قیمت ادا کرنا لازم ہو گی )البتہ غیر مسلم چونکہ صدقہ کرنے کا اہل نہیں ہے،اس لیےاسکا مال بغیرصدقہ کی نیت کے ضرورت مندوں پر خرچ کردیاجائے ،باقی احکامات میں مسلم اور غیر مسلم کا لقطہ برابر ہے۔
البحر الرائق میں ہے:
"وينتفع بهالوفقيراوإلاتصدق على أجنبي ولأبويه وزوجته وولده لو فقيرا) أي ينتفع الملتقط باللقطة بأن يتملكها بشرط كونه فقيرا نظرا من الجانبين كما جاز الدفع إلى فقير آخر وأما الغني فلا يجوز له الانتفاع به"۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،كتاب اللقطة،ج:5،ص:170،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا رفع اللقطة يعرفها۔۔۔ويعرف الملتقط اللقطة في الأسواق والشوارع مدة يغلب على ظنه أن صاحبها لا يطلبها بعد ذلك هو الصحيح۔۔۔ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده۔۔۔وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه۔۔۔كل لقطة يعلم أنها كانت لذمي لا ينبغي أن يتصدق بها ولكن تصرف إلى بيت المال لنوائب المسلمين، كذا في السراجية"۔
( الفتاوى الهندية،كتاب اللقطة،ج:2،ص:290،289،ط:دار الفكر بيروت)
وفيه ايضاً:
"كل لقطة يعلم أنها كانت لذمي لا ينبغي أن يتصدق بها ولكن تصرف إلى بيت المال لنوائب المسلمين، كذا في السراجية"۔
( الفتاوى الهندية،كتاب اللقطة،ج:2،ص:290،289،ط:دار الفكر بيروت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
سوال :وہ مال کہ کوئی شخص دشمن کے مقابلہ میں گیا بوجہِ خوف دشمن مال چھوڑ کر چلا ایا اتفاقاً دشمن بہت دور ہے، اور وہاں پر کوئی نہیں، فقط وہاں کے باشندے ہیں مال مذکور کو وہاں کے باشندے تصرف کر سکتے ہیں یا نہیں؟لڑنے والے دونوں فرقے کافر ہیں مال مذکور کا کیا حکم ہے؟ اس کو مال فئ کہیں گے، مال غنیمت یا مالِ زائد؟
جواب: وہاں کے باشندہ کو اس مال میں تصرف کا حق حاصل نہیں، اور اس مال کو مال فئے اور غنیمت نہیں کہہ سکتے اگر اس کو مسلمان اٹھا لیں گے تو وہ ان کی ضمان میں آجائے گا اور اس کا اصل مالک کو پہنچانا ضروری ہوگا۔
ـ(فتاوی محمودیہ ،ج:14، ص:172،ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510102351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن