بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں پرندوں کو پالنا


سوال

 گھر کے اندر پرندوں کو پنجروں کے اندر پالنا کیسا ہے؟

جواب

اگر پرندوں کی خوراک اور ضروریات وغیرہ کا خیال رکھا جاتا ہے تو انہیں گھر میں  پالنا  درست ہے،    حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے:

"يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه".

’’اے ابو عمیر! نغیر (ایک پرندہ) کا کیا کیا؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا‘‘۔

(بخاري، الصحيح، 5: 2291، رقم: 5850، دار ابن کثير اليمامة بيروت)

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے، مگر آپ ﷺ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

"إن في الحديث دلالةً على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي صلى الله عليه وسلم".

ترجمہ: اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے۔

(عسقلاني، فتح الباري، 10: 584، دار المعرفة بيروت)

 لیکن اس کے ساتھ ضروری شرط یہ ہے کہ ان جانوروں کےحقوق کا خیال رکھا جائے اور ان کی حق تلفی نہ کی جائے، کیوں کہ ان کو خوراک مہیا نہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"دخلت امرأة النار في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض".

ترجمہ: ایک عورت صرف اس لیے جہنم میں چلی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی، لیکن اسے نہ تو کھانا کھلایا اور نہ ہی اسے زمین میں کھلا چھوڑ دیا کہ وہ حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔

(بخاری، الصحيح، كتاب بدء الخلق، رقم: 2)

 البتہ کبوتر یا دیگر پرندے اڑانےکو مشغلہ بنانا، ہر وقت ان ہی کے ساتھ شوقیہ مصروف رہنا اور پرندے لڑانادرست نہیں ہے، احادیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔      حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

’’ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن ابن عباس قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن التحريش بين البهائم."

(ترمذی : باب کراہیۃ التحریش بین البہائم : حدیث: ۱۷۰۹)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں