بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر ارادی طور پر ٹھہرنے والے حمل کو ساقط کرنا


سوال

 میری اہلیہ غیر ارادی طور پر حاملہ ہوگئی ہیں، ہم ابھی بچہ پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں، ابھی ان کا حمل ڈیڑھ ماہ کا ہوگا، اسقاط کی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر  حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے یا خراب ہوجائے جس سے پہلے بچے کو نقصان ہو اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے تو ایسے اعذار کی بنا پر حمل میں روح پڑجانے سے  پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور شدید عذر نہ ہو تو پھر حمل کو ساقط کرنا مکروہ ہے، اس لیے صرف بچے کی شیرخوارگی کی وجہ سے یا محض  ولادت کا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے  یا معاشی حالات کے خوف سے  ؛جب کہ مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر نہ ہو ؛حمل ساقط  کروانا درست نہیں، بلکہ اولاد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھ کر اس پر راضی رہنا چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔بلکہ شریعت کی نظر میں اولاد کی کثرت پسندیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زیادہ جننّے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے چناں چہ حدیث شریف میں ہے: 

"عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أصبت امرأةً ذات حسبٍ وجمالٍ، وإنها لاتلد، أفأتزوجها، قال: «لا»، ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: «تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم»."

اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت سے نکاح کی اجازت چاہی جو حسن وجمال اور اعلی حسب ونسب کی حامل تھی، لیکن بچے نہیں جنتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کے اجازت لینے کے باوجود اسے اس سے نکاح کی اجازت نہ دی، اور تیسری مرتبہ اجازت لینے پر فرمایا: محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، اس لیے کہ میں روزِ قیامت تمہارے ذریعے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔

(«سنن أبي داود » (3/ 395), باب:‌‌3 - باب في تزويج الأبكار، کتاب النکاح، الناشر: دار الرسالة العالمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان".

(5 / 356، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، کتاب الکراهیة، ط:رشیدیه) 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح".

(3 / 176، مطلب في إسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209201664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں