بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس پمپ مشین کا مجبوری کی وجہ سے استعمال کرنے کا حکم


سوال

ہمارے محلے میں تقریباً تمام محلہ  داروں نے اپنے اپنے گھروں میں گیس کھینچ کر بڑھانے والی "گیس پریشر مشینیں" لگائی ہوئی ہیں، اور جب سے پورے محلے میں ان مشینوں کا استعمال ہونے لگا ہے، ہمارے گھر میں گیس آنا بند ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے سخت تکلیف کا سامنا ہے، لہذا اس مجبوری اورسخت ضرورت کےتحت اس گیس پریشر مشین کو لگوا کر فقط ضرورت کی حد تک ہم استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اس مشین کے بغیر گزر بسر کرنا ، اور کھانے پکانے کے دیگر ذرائع استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل  کے لیے گیس بڑھانے کے لیے "گیس پمپ" مشین استعمال کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ لوگوں میں  اس فکر کو عام کرے کہ اس "گیس پمپ" کا استعمال ضررعام کی وجہ سے شرعاً اور قانوناً دونوں طرح ناجائز ہے، اس مشین کے استعمال کی وجہ سے دیگر لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے، نیزاس معاملے میں قانونی ذرائع کا بھی سہارا لے، لیکن اگر کسی طور پر بھی معاملہ حل نہ ہو،محلے کے دیگرلوگ اس مشین کا استعمال ترک نہ کریں،اور  گھر کی بنیادی اور ناگزیر ضروریات میں بھی سائل  کوگیس دستیاب نہ ہو،تو اس کے لیے اس تکلیف اورمجبوری کی وجہ سے فقط ضرورت کی حد تک " گیس پمپ" استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي صرمة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من ضار أضر الله به، ومن شاق شق الله عليه»".

( کتاب الاحکام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ج:2، ص:785، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص".

(فيض القدير  للمناوی، حرف "لا"،  برقم: 13474، ج:6، ص:431، ط: المكتبة التجارية الكبرى)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره".

 وفي الرد: "والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى".

( کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،ج:6، ص:398، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں